یہ پاکستان کا بحران ہے آپ کا نہیں

561

پاکستان اِس وقت شدید سیاسی، اخلاقی، سماجی اور معاشی بحرانوں میں مبتلا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوئے ہیں، طاقتور حلقوں نے اس کے نتائج کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ کام بڑی مہارت سے کیا گیا ہے تا کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ لیکن اب کی دفعہ دھاندلی کے بجائے ’’دھاندلا‘‘ برپا کیا گیا ہے اور یہ تکلف بھی روا نہیں رکھا گیا کہ سانپ کو مارتے وقت لاٹھی نہ ٹوٹنے پائے۔ پے در پے ضربات کے باوجود سانپ تو ان سے مر نہیں سکا وہ بدستور پھنکاریں مار رہا ہے، البتہ لاٹھی کے ٹکڑے جا بجا بکھرے پڑے ہیں اور ملک میں شدید بدنظمی، بدامنی اور بحران کی نشاندہی کررہے ہیں۔ انتخابات کے بعد احتجاج بھی ہماری جمہوری روایت کا حصہ ہے لیکن اب کی دفعہ جمہوریت کو اس بری طرح کچلا اور زخمایا گیا ہے کہ اس کی چیخیں بند ہونے میں نہیں آ رہیں اور احتجاج ہے کہ مسلسل پھیلتا جارہا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ مولانا فضل الرحمن جو ہمیشہ اقتدار کی سیاست کرتے رہے ہیں اس کھیل سے بیزار ہو کر میدان میں نکل آئے ہیں اور انتخابی نتائج تبدیل کرنے پر طاقتور حلقوں کو للکار رہے ہیں وہ ببانگ دہل یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ انتخابات کے نتائج الیکشن کمیشن نے مرتب کیے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ الیکشن بظاہر الیکشن کمیشن نے کرائے ہیں لیکن امیدواروں کی ہار جیت کا فیصلہ فوجی مقتدرہ نے اپنی صوابدید پر کیا ہے جو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن سیاسی حرکیات کو دوسرے تمام سیاستدانوں سے بہتر جانتے ہیں۔ انہوں نے یہ صدائے احتجاج اس وقت بلند کی ہے جب قوم کا ضمیر اس دھاندلے کو کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حضرت مولانا ملک میں بڑے بڑے جلسے کررہے ہیں اور اس آگ کو مزید پھیلا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن بھی خود ساختہ انتخابی نتائج کے خلاف پوری قوت سے بروئے کار آئے ہیں اور برملا اعلان کررہے ہیں کہ فارم 47 کی بنیاد پر بننے والی حکومت عوام کو کسی صورت بھی منظور نہیں۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس صورت حال کا سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے غیر نمائندہ حکومت کو رخصت کرے اور ووٹوں کی اصل گنتی کی بنیاد پر فارم 45 کے تحت عوام کی نمائندہ حکومت قائم کی جائے۔ بصورت دیگر وہ ایک بڑی احتجاجی تحریک برپا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بلوچ لیڈر محمود خان اچکزئی ’’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘‘ کے تحت سرگرم عمل ہیں اور فوجی مقتدرہ اور اس کی ٹائوٹ حکومت کو للکار رہے ہیں۔ جی ڈی اے سندھ کے قائد پیرپگاڑا کی آواز بھی اس احتجاج میں شامل ہے اور وہ اندرون سندھ بڑے بڑے احتجاجی جلسے کرچکے ہیں۔

یہ سارا منظرنامہ ہمیں بتارہا ہے کہ ملک شدید بحران میں مبتلا ہے، اگر اسے اس بحران سے نکالنے کی کوششیں زیادہ کارگر ثابت نہ ہوئیں تو خدانخواستہ اس کی سالمیت بھی معرض خطر میں پڑسکتی ہے۔ ایسے میں ایک معروف کالم نگار مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور اپنی پارٹی کے ترجمان محترم عرفان صدیقی کا قلم حرکت میں آیا ہے اور انہوں نے ایک کالم تحریر فرمایا ہے جس کا عنوان ہے ’’یہ آپ کا بحران ہے، پاکستان کا نہیں‘‘۔ انہوں نے اپنی تحریر میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہمارے ہاں جمہوری پارلیمانی نظام کا تانا بانا بکھر چکا ہے۔ کیا ہمارے ہاں واقعی حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ پھر ان سوالوں کے جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ الحمدللہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے، ہم اسی نوعیت کے عمومی مسائل سے دوچار ہیں جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے بیش تر ممالک کو درپیش ہیں۔ موصوف نے اپنے موقف کے حق میں دلاورفگار کا یہ شعر بھی درج کیا ہے۔

حالات حاضرہ گو نہیں مستقل مگر
حالات حاضرہ کو کئی سال ہوگئے

اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حالات حاضرہ کو بحران میں بدلے۔ ہیجان برپا کرنے اور طوفان اٹھانے کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہورہا۔ پھر انہوں نے نوید سنائی ہے کہ معیشت بحال ہورہی ہے، مہنگائی میں کمی آرہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں۔ مایوسی و ناامیدی کی دھند چھٹنے لگی ہے، مطلع صاف ہورہا ہے، پھر بحران کہاں ہے؟ موصوف نے پی ٹی آئی کو ٹارگٹ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ بحران صرف پی ٹی آئی کی صفوں میں ہے اور بند گلی میں صرف عمران خان کھڑے ہیں۔

ہم نہ عمران خان کے وکیل ہیں نہ ہمیں پی ٹی آئی سے کوئی غرض ہے۔ خان صاحب بھی اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اس مقام کو پہنچے ہیں اور پی ٹی آئی نے بھی کبھی سنجیدہ سیاست نہیں کی ہے۔ اس کی تفصیل میں جائیں تو بات بہت لمبی ہوجائے گی لیکن عرفان صدیقی صاحب نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے جس بحران کو ایک پارٹی اور ایک شخصیت تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے اس سے پوری قوم متاثر نظر آرہی ہے۔ موصوف پاکستان کو درپیش بحران کو جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے بیش تر ممالک کے عمومی مسائل قرار دیتے ہیں۔ موصوف اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا دنیا کے جمہوری ملکوں میں انتخابات اسی طرح کے ہوتے ہیں کہ عوام ووٹ تو کسی اور کو دیں اور نتیجہ کسی اور کے حق میں نکلے۔ فارم 47 کی یہی کہانی ہے جسے کوئی بھی جھٹلانے کا یارا نہیں رکھتا۔ اگر موصوف کے نزدیک یہی جمہوری پارلیمانی نظام ہے تو ملک میں ہر پانچ سال بعد انتخابات کا ڈراما رچانے اور الیکشن کمیشن پر اربوں روپے ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ کام فوجی مقتدرہ ہر پانچ سال بعد اپنی جوابدیدہ کے مطابق کرسکتی ہے اور موصوف کا لیڈر اس پر مہر تصدیق کرسکتا ہے۔ موصوف نے اپنے کالم کا عنوان باندھا ہے ’’یہ آپ کا بحران ہے، پاکستان کا نہیں‘‘ ہم بھی اس عنوان میں تصرف کرتے ہوئے اپنی تحریر کو یہ عنوان دے رہے ہیں۔ یہ پاکستان کا بحران ہے، آپ کا نہیں‘‘ جناب آپ کے تو وارے نیارے ہوگئے ہیں۔ کوئی عوامی مینڈیٹ حاصل کیے بغیر حکومت آپ کو مل گئی ہے۔ امریکا جو ایک شخص کے ’’ابسولیوٹلی نائٹ‘‘ کہنے پر ناراض تھا آپ سے راضی ہوگیا ہے اور صدر جوبائیڈن نے آپ کو تعاون کا خط لکھ دیا ہے۔ آئی ایم ایف آپ پر صدقے واری جارہا ہے اور عوام کو نچوڑنے کے نئے نئے گُر آپ کو بتارہا ہے۔ آپ نے درست فرمایا دھند چھٹ رہی ہے۔ مطلع صاف ہورہا ہے لیکن شاید آپ کو اندازہ نہیں کہ فوجی مقتدرہ آپ کے ہاتھ پائوں باندھ کر حکومت کی آڑ میں جو کچھ کررہی ہے اس سے پاکستان پوری دنیا میں رسوا ہورہا ہے۔ لیکن اس سے آپ کو کیا ’’یہ پاکستان کا بحران ہے آپ کا نہیں‘‘۔