بیسویں صدی جیسے جیسے اختتام کی جانب بڑھ رہی تھی، دنیا کی مختلف قومیں اپنے جمع خرچ کا حساب کرنے میں مصروف ہو رہی تھیں۔ اس سلسلے میں طرح طرح کے تجزیے اور موازنے ہو رہے تھے، یہاں تک کہ بعض صورتوں میں بات مقابلوں تک آپہنچی تھی۔
اس حوالے سے برطانیہ میں ایک ہزار سال کی اہم ترین شخصیت کے انتخاب کے لیے مقابلے کا ڈول ڈالا گیا۔ حیرت انگیز طور پر یہ مقابلہ ولیم شیکسپیئر نے جیت لیا۔ اس مقابلے میں ادب، سائنس، فلسفے اور میدانِ سیاست کی بڑی بڑی شخصیات شریک تھیں۔
شیکسپیئر کی کامیابی پر بہت سے لوگوں نے مسرت کا اظہار کیا اور دانشوروں اور سائنسدانوں پر مشتمل ماہرین کی کمیٹی کے حسن ِ انتخاب کی داد دی لیکن شیکسپیئر کی کامیابی سے بعض لوگوں کو حیرت اور افسوس بھی ہوا۔ ان میں سے بعض کا خیال تھا کہ نیوٹن ایک ہزار سال کی اہم ترین شخصیت قرار پانے کا زیادہ حق دار تھا۔ البتہ بعض کی رائے تھی کہ ڈارون نیوٹن سے بھی زیادہ اہم ہے۔
یہ آراء غلط ہوں یا صحیح، ان کا ایک پس منظر ہے۔ نیوٹن کی میکینکس نے سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا تھا اور یہ میکینکس تین سو سال سے زیادہ عرصے تک پوری دنیا پر راج کرتی رہی۔ نیوٹن کے بعض نظریات آج بھی اہم خیال کیے جاتے ہیں۔ جہاں تک ڈارون کا تعلق ہے تو اس کے نظریات نے نیوٹن سے کہیں زیادہ بڑا انقلاب برپا کیا۔ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کا تعلق Biology سے ہے لیکن اس نظریے کے اثرات کا یہ عالم ہے کہ کوئی شعبۂ علم اس کی زد سے نہیں بچا۔ عمرانیات، علم البشریات، تاریخ نفسیات، یہاں تک کہ معاشیات بھی ارتقا کے نظریے سے متاثر ہوئی۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ بیسویں صدی کو سائنس کی صدی کہا گیا ہے، چنانچہ جن لوگوں نے نیوٹن اور ڈارون کی حمایت کی یا ان کے ہار جانے پر افسوس کا اظہار کیا، ان کی حمایت اور افسوس قابل ِ فہم ہے۔
کہنے والوں نے یہ بات نہیں کہی لیکن شیکسپیئر کی فتح پر افسوس کرنے والوں پر یقینا یہ بات بھی کھلی ہو گی کہ یہ ادب کے چل چلاؤ کا وقت ہے۔ کم از کم مغرب میں یہ نعرہ خاصا مقبول ہے۔ لیکن اس نعرے کو نعرہ کہنا حقیقت سے انحراف کرنا ہے، کیونکہ مغربی ملکوں میں کتابیں تو آج بھی پڑھی جارہی ہیں لیکن ادب پڑھنے کا رجحان وہاں بھی کمزور پڑ چکا ہے۔ برطانیہ سے ابھی حال ہی میں یہ خبر آئی تھی کہ وہاں کے سب سے اہم شاعر کی کتاب صرف ایک لاکھ فروخت ہوئی ہے۔ مغربی دنیا میں ادب کی اہمیت یوں بھی افراط و تفریط کا شکار رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ وہاں پر کہا گیا کہ مذہب کی رخصتی سے پیدا ہونے والا خلا ادب پُر کرے گا اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ وہاں کہہ دیا گیا کہ ادب کا دور گزر چکا ہے۔ یہ سائنس کا زمانہ ہے اور سائنسی شعور کو ادب کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن اب جبکہ برطانیہ میں بڑی شخصیتوں کا مقابلہ ہوا ہے تو شیکسپیئر کو اوّلیت حاصل ہو گئی ہے۔ کیا شیکسپیئر کی فتح، سائنس پر ادب کی برتری کا اعلان و اعتراف ہے؟ اس سے پہلے کہ ہم اس سوال پر غور کریں، یہ دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں کہ شیکسپیئر کی کامیابی کی کیا کیا وجوہات بیان کی گئیں؟
ایک بات تو یہ کہی گئی کہ شیکسپیئر کے اثرات عالم گیر ہیں اور جہاں پاؤنڈ اور ڈالر نہیں چلتا شیکسپیئر وہاں بھی چلتا ہے۔ مثلاً جاپان میں۔ جہاں اس وقت شیکسپیئر مقبول ترین ڈراما نگار ہے اور اس کے ڈرامے سال میں سیکڑوں مرتبہ اسٹیج ہوتے ہیں۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ شیکسپیئر یورپی کلچر اور مزاج کا بہترین ترجمان ہے۔ ہر چند کہ اس کے فن میں آفاقی اقدار ملتی ہیں لیکن شیکسپیئر کی جڑیں اس کی اپنی تہذیب میں پیوست ہیں۔ اس بات کو بھی اہمیت دی گئی کہ شیکسپیئر کے فن میں عظمت کے عناصر بکثرت پائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا شیکسپیئر کی فتح سائنس پر ادب کی برتری کا اعلان و اعتراف ہے، تو اس میں کوئی شک ہی نہیں۔ بلاشبہ شیکسپیئر یورپ کی ایک تہذیبی علامت ہے لیکن اس علامت کی اہمیت اس کے فن کے حوالے سے ہے۔
یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر شاعری یا فن اور سائنس ایک ہو جاتے ہیں لیکن یہ بات صرف اس حد تک درست ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر شاعروں اور سائنسدانوں کا سر چشمہ ایک ہی ہوتا ہے، یعنی وجدان Intution لیکن اس کے باوجود شاعر اور سائنسدان کے الہام میں ایک نوعی فرق موجود ہے۔ اس لیے کہ سائنسدان بنیادی طور پر دریافت کے عمل سے گزرتا ہے جبکہ شاعر یا فنکار خلق کرنے کے عمل سے گزرتا ہے تخلیق میں دریافت کا عمل بھی ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ دریافت میں تخلیق کا عمل بھی موجود ہو۔ شیکسپیئر شاعر بھی تھا لیکن اس کی عظمت ڈرامے کے حوالے سے ہے جسے وہ شاعری کے بے حد قریب لے آیا ہے۔
شیکسپیئر کا زمانہ زیادہ پرانا نہیں لیکن اس کے باوجود اس کی شخصیت اور فن کے حوالے سے ایک تنازع چلا آرہا ہے: بعض محققین کی تحقیق یہ ہے کہ شیکسپیئر نام کے کسی شخص کا کبھی کوئی وجود ہی نہیں تھا اور یہ کہ شیکسپیئر کے ڈرامے دراصل بیکن کی تخلیق ہیں۔ لیکن یہ سب فضول باتیں ہیں۔ اصل بات شیکسپیئر کا آرٹ ہے جو ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ آرٹ کس نے خلق کیا ہے اور کس نے نہیں کیا ہے؟ اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔
فن کی دنیا میں دعوؤں کا رواج عام ہے۔ شاعر اور ادیب تو یوں بھی خبط عظمت میں کچھ زیادہ ہی مبتلا پائے جاتے ہیں، لیکن فن کی عظمت کا پیمانہ وقت ہے۔ وقت جو صفحہ آب رواں کی مانند ہے اور جس پر تحریر کا نقش چھوڑنا مذاق نہیں۔ شیکسپیئر کی عظمت یہ ہے کہ صفحہ آب رواں پر اپنی تحریر کے یادگار نقش چھوڑ گیا ہے، وہ نقش جو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ سلیم احمد نے کہا ہے
کتنے لکھنے والے اس حسرت میں مٹّی ہوگئے
صفحۂ آبِ رواں پر نقش ہو تحریر کا
زندگی کا تجربہ بتاتا ہے کہ اکثر تخلیق کاروں کی عمر چند سال یا چند دہائیاں ہوتی ہیں۔ آج سے پچاس سال پہلے پوری اردو دنیا میں جوش ملیح آبادی کا ڈنکا بج رہا تھا مگر آج کوئی ان کا نام لیوا نہیں ہے۔ اس کے برعکس میر تقی میر ڈھائی سو سال سے زندہ ہیں۔ غالب اور اقبال سو سال سے اردو دنیا پر راج کررہے ہیں۔ شیکسپیئر کا کمال یہ ہے کہ اسے ایک ہزار سال کی سب سے بڑی شخصیت سمجھا گیا ہے۔ حقیقی عظمت ایسی ہوتی ہے۔