بھارت نے پاکستان دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے افغانستان کو گوادر کے بجائے ایرانی بندرگاہ چابہار کا راستہ دکھا دیا۔ چابہار پورٹ کو گوادر کے مقابلے میں گہرے پانیوں کی بندرگاہ بنانے کے لیے تمام وسائل خرچ کرنے کا باضابطہ عندیہ دے دیا ہے۔ پاکستان اور ایران جغرافیائی، معاشی، سماجی، تاریخی، سیاسی و ثقافتی اور لسانی بندھن میں بھی بندھے ہوئے ہیں۔ یہ بندھن فارسی زبان کی آمیزش سے اور بھی مستحکم ہوا جس نے مغلیہ دور میں برصغیر پر برسوں راج کیا۔ پاکستان کا اس وقت کا یہ مخصوص جھکائو اور رویہ ایران اور ہندوستان کے قریب ہونے کی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ دورِ شاہ ایران مختلف شعبہ ہائے زندگی میں پاکستان ایران قربت کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستان، ایران اور ترکی کا مرکزی معاہدہ (CENTO) کے تحت اکٹھے ہونا بھی بھرپور اتحاد کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف اگر پاک چائنا راہداری منصوبہ اور گوادر بندرگاہ ہے تو دوسری جانب بھارت نے ایران کی بندرگاہ ’’چابہار‘‘ پر قدم جما رکھے ہیں جو ایران کے صوبے سیستان میں واقع ہے۔ سرزمین ’’چابہار‘‘ کو چاروں موسموں کی آماج گاہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ بندرگاہ ایران کو بحر ہند تک رسائی فراہم کرتی ہے جسے ایرانی حکومت نے فری ٹریڈ ذون قرار دیا ہوا ہے۔ چابہار میں پہنچ کر بھارت اقتصادی لحاظ سے اہم آبنائے ہرمز تک پہنچ جائے گا کیونکہ یہ دنیا بھر میں تیل کی ترسیل کی ایک بڑی گزر گاہ ہے۔ اس طرح وہ گوادر بندرگاہ کی عالمی اہمیت کو نقصان پہنچا کر سی پیک میں کوئی رخنہ ڈال سکتا ہے، حالانکہ چین اس علاقے میں پہلے سے موجود ہے۔
گوادر پاک چین اقتصادی راہداری کا مرکز ہے جہاں 40سال تک چین کی موجودگی یقینی ہے۔ بھارت یہ بھی سمجھتا ہے کہ وہ چابہار میں موجود صرف 72 کلو میٹر کے فاصلے پرگوادر میں چین کی ہر سرگرمی پر گہری نظر رکھ سکتا ہے لیکن امریکا کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ بھارت کے ذریعے ایران کی سرگرمیوں پر مکمل نظر رکھ سکتا ہے۔ بھارت اپنے مربی امریکا اور اسرائیل کے تعاون سے چابہار کی بندرگاہ پر سرمایہ کاری اور ترقیاتی کام سے ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ چابہار دنیا کی تیسری بڑی تیل مہیا کرنے والی بندرگاہ بننے کے ساتھ افغانستان کا اہم تجارتی اقتصادی راستہ بھی ہے۔ چابہار کے ذریعے بھارت افغانستان میں تعمیری منصوبوں میں اہم کردار اداکرسکتا ہے، جو چابہار کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ پاکستان بھارت کو افغانستان تک پہنچنے کے لیے کبھی اپنی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا جبکہ پاکستان اور چین کئی مرتبہ بھارت اور ایران کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دے چکے ہیں اور بھارت اس معاملے میں دنیا کو دھوکا دینے کی کھلی کوشش کررہا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ وہ چابہار کی بندرگاہ کو وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی تعلقات کے لیے استعمال کرنے کا خواہش مند ہے۔ اس وقت بھارت کی ان ریاستوں کے ساتھ کل تجارت محض 1.5ارب ڈالر ہے جبکہ بھارت چابہارکے بین الاقوامی شمالی جنوبی ترسیلی راہداری کے ساتھ رابطہ ہونے کے بعد اس بندرگاہ سے یوریشیا کی طرف سے ایک گیٹ وے کا کام لینا چاہتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق بین الاقوامی شمالی جنوبی ترسیلی راہداری کے ذریعے تجارت کا حجم 170 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتا ہے۔
بھارت چابہار پر شاہد بہشتی ٹرمینل تعمیر کر رہا ہے جبکہ ایران اور بھارت نے چابہار پورٹ کو جدید طرز پر بنانے کے سلسلے میں ایک دس سالہ معاہدہ کیا ہے۔ یہ ایک طرح کا نیا کوریڈور ثابت ہوگا۔ اس معاہدہ سے براہ راست سی پیک متاثر ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت اور ایران کے درمیان چابہار پورٹ کے درمیان پہلا معاہدہ 2003ء میں ہوا تھا۔ بعد میں 2016ء میں اس میں افغانستان بھی شامل ہوگیا تھا۔ بھارت نے افغانستان کو چابہار پورٹ سے ملانے کے سلسلے میں ایک لمبی سڑک بھی تعمیر کی ہے‘ جو اس وقت بھی فعال ہے۔ ایران اور بھارت کے درمیان دس سالہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب بھارت میں عام انتخابات تقریباً ختم ہونے والے ہیں۔ اس معاہدے کو نریندر مودی اپنے حق میں استعمال کرکے بھارت کے انتہا پسند ہندوئوں کے ووٹ خاصی تعداد میں حاصل کرسکتا۔ ویسے بھی یہاں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بھارت سی پیک کے شروع سے ہی خلاف تھا اور اس نے گمراہ بلوچوں کی مدد سے اس اہم پروجیکٹ کے لیے سیکورٹی سے متعلق اہم مسائل پیدا کیے تھے۔ چنانچہ ایران اور بھارت کے درمیان چابہار پورٹ سے متعلق دس سالہ معاہدہ ہر لحاظ سے سی پیک کے لیے مسائل کھڑے کرسکتا ہے ہرچند کہ ایران سی پیک کے سلسلے میں کچھ تحفظات ضرور رکھتا ہے لیکن وہ پاکستان اور چین کے درمیان اس اہم منصوبے کو کسی بھی طرح سبوتاژ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ ایران کی قیادت نے اس ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چابہار پورٹ اور گوادر پورٹ تجارت کے پس منظر میں ایک دوسرے کے complimentary ثابت ہوںگے۔ تاہم بھارت کا رویہ سی پیک کے سلسلے میں اتنا خوش آئند نہیں ہے جیسا کہ ایران کا ہے تاہم اس سلسلے میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایرانی صدر مرحوم رئیسی نے پاکستان میں گزشتہ دنوں اپنے تین روزہ قیام کے دوران اس اہم مسئلہ پر پاکستانی احکام کے ساتھ گفت وشنید کی ہے‘ اگر کی ہے تو پاکستانی عوام کو اس سلسلے میں کسی قسم کی اطلاع نہیں ہے۔ نیز ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا، بھارت اور ایران کے درمیان اس معاہدے کو تسلیم کرتا ہے جبکہ ایران پر امریکا کی جانب سے معاشی پابندیاں عائد ہیں‘ کیا اس کا اطلاق اس معاہدے پر نہیں ہوگا؟ اس ضمن میں امریکا نے کھل کر کوئی بیان نہیں دیا لیکن باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ امریکا بھارت کی وجہ سے اس معاہدے کا حامی نظرآتا ہے کیونکہ بھارت اور امریکا باہم مل کر سی پیک کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ چین بھارت اور امریکا کا دوست نہیں ہے لیکن دشمن بھی نہیں ہے۔ کیونکہ چین کی بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اور آئندہ بھی ایسا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
بھارت کی معیشت بھی مسلسل بڑھ رہی ہے اور اب یہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکی ہے۔تاہم چین کے لیے چابہار پورٹ پربھارت کی جانب بڑی تعداد میں سرمایہ کاری کی وجہ سے چابہار پورٹ سے افریقا‘ سینٹرل ایشیا‘ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے لیے تجارتی راہداری کھل جائے گی۔ جس کے سی پیک پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ بھارت اور ایران کے درمیان چابہار پورٹ سے متعلق معاہدے کے بعد چین بھی سوچ رہاہے کہ کسی تیسرے ملک کو سی پیک میں شامل کرکے اس کو زیادہ فعال اور طاقتور بنایاجاسکے۔ پاکستان کو ایران اور بھارت کے درمیان چابہار پورٹ سے متعلق معاہدے پر تشویش ضرور ہے لیکن ابھی تک پاکستان کی جانب سے کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیاہے۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتا ہے ماسوائے اس کے کہ سی پیک کے سیکنڈ فیز کو زیادہ تیز کرکے وہاں غیر ملکی سرمایہ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
دوسری طرف پاکستان کے فارن آفس کو ایران سے اپنے سفارتی ذرائع سے اس معاہدے سے متعلق معلومات حاصل کرنی چاہیے تاکہ پاکستان سی پیک سے متعلق اپنے آئندہ پروگرام کو حتمی شکل دیتے ہوئے اس کی فعالت کو ہر طرح سے یقینی بناسکے‘ ایسا کرنا پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں ایرانی صدر کے دورے کے بعد بہتری آئی ہے اوردونوں ملکوں کے درمیان سیاسی، تاریخی اور ثقاقتی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے پر زور دیا گیاہے۔ اگر چابہار پورٹ اور گوادر پورٹ کے ذریعے ہونے والی تجارت سے ان دونوں ملکوں کے مفادات پر کوئی ضرب نہیں پڑتی ہے اور اس خطے کے دیگر ممالک بھی مستفید ہوسکیں گے تو پاکستان کو اس پہ کیا اعتراض ہوسکتاہے۔ لیکن ماضی میں بھارت نے سی پیک پروجیکٹ کوناکام بنانے کے لیے جوکچھ بھی کیاہے۔ اس کو بھولنانہیں چاہیے۔ بلکہ اب زیادہ محتاط ہوکر اس کے سیکنڈ فیز پر تیزی سے کام شروع کر دینا چاہیے اور اپنی سفارت کاری کوبھی زیادہ موثر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔