روہنگیا کے مسلمانوں کو تحفظ چاہیے

492

جس طرح برما اور میانمر ایک ملک کے دو نام ہیں اسی طرح رخائن اور اراکان بھی ایک ہی ریاست کے دو نام ہیں۔ یہ برما کی ریاست راکھائین، رخائن یا اراکان روہنگیا مسلمانوں کا آبائی وطن ہے۔ 1785ء میں برطانیہ کی حکومت نے پورے برما پر قبضہ کرلیا اور اراکان کو برما کی ایک ریاست بنادیا۔ 1948ء میں جب انگریزوں نے برصغیر ہندوپاک کو آزاد کیا تو ہندوستان پاکستان کے ساتھ برما کو بھی آزاد کیا۔ برما کو آزاد کرتے ہوئے انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اراکان ریاست جو مسلمان تھی اس کے وجود کو بھی بحال کیا جاتا، اس کی شناخت اور پہچان واپس کی جاتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، مسلم دشمنی میں اراکان کو برطانیہ نے دو حصوں میں تقسیم کردیا، ایک مختصر حصہ بنگلادیش جو اس وقت مشرقی پاکستان تھا اور بڑا حصہ برما میں شامل کردیا۔ یوں کشمیر کی طرح اراکان کو بھی ایک رستا ہوا ناسور بنانے کی کوشش کی گئی جو کامیاب رہی۔ 1982ء میں برما کی فوجی حکومت کے دور میں امتیازی قوانین کے ذریعے مسلمان کی زندگی مشکل بنادی گئی، ان کی جائدادیں چھین لی گئیں اور شہریت ختم کردی گئی۔ (اِس وقت یہ پریکٹس بھارت کی حکومت بھی کرنے کی کوشش میں لگی ہے)۔
برما کے صوبہ اراکان میں 30 لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد تھے جو وہاں کی کُل آبادی کا 90 فی صد تھے۔ 2012ء میں اراکان میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے، ان فسادات میں بدھسٹ برما کی حکومت نے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کی اور سیکڑوں مسلم آبادیوں کو نذر آتش کیا۔ وہ بدھ جن کے مذہب میں چیونٹی کو مارنا بھی گناہ تصور ہوتا ہے انہوں نے مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا۔ 20 اگست 2017ء میں دوبارہ روہنگیا باشندوں کا ایک بہت بڑا قتل عام ہوا۔ اقوام متحدہ کی عدالت نے اُسے نسل کشی کے ایک تاریخی مقدمے کے طور پر درج کیا۔ اس قتل عام کے نتیجے میں لاکھوں روہنگیا باشندے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ آج ان میں سے بڑی تعداد بنگلادیش میں پناہ گزین کیمپ میں نہایت ابتر حالات میں زندگی گزار رہی ہے۔ اراکان کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ وہاں برما کی فوج اور مسلح باغی جنگ لڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے روہنگیا مسلمانوں کی جانوں کو خطرات ہیں، ان کے گھروں کو جلایا جارہا ہے۔ رخائن کے قصبے بوتھیڈانگ کو مسلمانوں سے مکمل خالی کرالیا گیا ہے یہ مسلمانوں کی آبادی والا قصبہ تھا اب لوگ جان بچانے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ایک طرف برما کی فوج انہیں نشانہ بنارہی ہے اور دوسری طرف بدھسٹ مسلح باغی جو اپنے آپ کو اراکان آرمی کہتی ہے گھروں کو آگ لگا رہے ہیں، اسکولوں اور اسپتالوں میں حملہ کررہے ہیں جہاں روہنگیا مسلمانوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ ریاست میں موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بند ہے، لہٰذا وہاں سے خبر باہر نہیں آرہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے اراکان میں تشدد کی نئی لہر پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فوجی حکومت اور اراکان آرمی دونوں مسلمانوں کو اپنی جنگ کا ایندھن بنانے پر مطمئن ہیں کہ اس طرح وہ اراکان سے ان کی آبادی کم سے کم کرسکیں گے۔
برما (میانمر) کی حکومت نے 2014ء میں اراکان کی مردم شماری رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق اراکان کی کُل آبادی 21 لاکھ ہے، جس میں سے 20 لاکھ بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ اس وقت رپورٹ کے مطابق ریاست کی تقریباً 10 لاکھ کی آبادی کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ روہنگیا مسلمان ہیں، ان کو اراکان کے دارالحکومت سائتوے سے باہر ایک ممنوع علاقے میں رکھا گیا تھا۔ 2014ء سے قبل بھی اراکان سے مسلمان آبادی کو نکالا گیا کیونکہ یہ مسلم اکثریتی ریاست تھی جہاں 30 لاکھ مسلمان آباد تھے۔ یعنی 90 فی صد آبادی مسلمان تھی۔ میانمر حکومت کے مظالم کے باعث لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے بنگلادیش، ملائیشیا، سعودی عرب اور پاکستان میں آباد ہوئے۔ روہنگیا مسلمانوں کا آج بھی یہی مطالبہ ہے کہ انہیں عزت و وقار کے ساتھ وطن میں واپس آباد کیا جائے وہ کیمپوں اور پناہ گاہوں میں چندے سے زندگی گزارنا نہیں چاہتے۔ روہنگیا برادری کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ 1982ء میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے قانون کو منسوخ کیا جائے جس کے تحت نہ صرف ان کی جائدادیں چھین لی گئیں بلکہ ان کی شہریت بھی چین لی گئی، مسلمان ممالک کو اجتماعی طور پر اس کے لیے آواز اٹھانی چاہیے، میانمر کی حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے، اس کے لیے سیاسی اور معاشی دبائو کے ساتھ اقوام متحدہ سمیت ہر طرح کا فورم استعمال کرنا چاہیے۔ روہنگیا قوم کا اپنا وطن پر اسی طرح حق ہے جس طرح دنیا کی کسی بھی دوسری قوم کا اپنے وطن پر۔