کھسرا درکار ہے

460

خبر یہ ہے کہ ’’نامعلوم‘‘ افراد کی جانب سے پی ٹی آئی سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن پر حملہ کیا گیا ہے۔ حملہ اسلام آباد میں نجی ٹی وی چینل کے دفتر کے باہر کیا گیا۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق ترجمان پی ٹی آئی پر نامعلوم افراد نے بلیڈ سے حملہ کیا اور موقع سے فرار ہوگئے۔ ابھی کسی بھی قسم کے معلوم یا ’’نامعلوم کھسرے‘‘ نے اس کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔ اس لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ کھسروں کے اس ایکشن کی کیا وجہ تھی۔ کوئی ذاتی پرخاش تھی یا سیاسی، سماجی یا کاروباری مفاد کا معاملہ۔

کھسروں کی گزشتہ دنوں کی کچھ نا مانوس کارروائیوں سے ایسا لگتا ہے کہ کھسروں نے (غالبا فی الحال تجرباتی طور پر) اپنے روایتی کام سے ہٹ کر کچھ نئے کام بھی شروع کر لیے ہیں۔ کچھ دن پہلے پولیس والوں کی ’’فزیوتھراپی‘‘ کی کامیابی اور عوام کی طرف سے پزیرائی اور حوصلہ افزائی کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ کھسروں کا حوصلہ خاصا بڑھ گیا ہے۔ پولیس کے خلاف کھسروانہ کارروائی کے بعد ایک سیاسی پارٹی کے ترجمان کے خلاف تادیبی کارروائی سے کھسروں کے بارے میں لوگوں کی سوچ میں خاصی ’’تبدیلی‘‘ آئی ہے۔ ویسے پولیس والوں کی سکائی جس انداز سے ہوئی ہے اس میں کوئی ابہام نہیں کہ یہ کارروائی کس نے کی ہے۔ لیکن دوسری کارروائی میں لوگوں کی دو آراء ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لباس، بوٹوں اور حرکات سے واضح ہے کہ یہ روایتی کھسروں کی کارروائی نہیں ہے۔ جب کہ دوسری کارروائی میں ابہام یہ ہے کہ کیا کھسروں نے تربیت لے کر یہ کارروائی کی ہے یا ’’تربیت یافتہ کھسروں‘‘ نے یہ ’’کھسروانہ ایکشن‘‘ کیا ہے۔

’’محتاط محب وطن‘‘ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی کھسروں کا ہی کام ہے جبکہ ’’عوام دشمن‘‘ لوگ کارروائی کے وقت زیب پا اور زیب تن کیے گئے ’’بوٹوں‘‘، کوٹ اور جینز کی پینٹ کی بنیاد پر اس کو کھسروانہ کارروائی ماننے کو تیار نہیں۔ لوگوں کا کیا ہے لوگ تو باتیں بناتے ہی رہتے ہیں۔ ہمیں تو ان دونوں کارروائیوں میں بہت سے مثبت اور مفید پہلو نظر آئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ تنوع کے اس دور میں اب کھسرے بھی اپنے کام میں جدت اور تنوع لا رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ محکمہ داخلہ کو چاہیے کہ کھسروں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے

مردانہ پولیس، زنانہ پولیس کے ساتھ ساتھ کھسرا پولیس فورس بھی بنائیں۔ یقین ہے کہ کھسرا پولیس عام پولیس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ اگر کھسرا پولیس کا تجربہ کامیاب ہو جاتا ہے (جو یقینا کامیاب ہوگا) تو پھر کچھ اور اداروں میں بھی ’’کھسرا یونٹ‘‘ بنائے جاسکتے ہیں۔

کسی ٹی وی چینل کے دفتر کے سامنے روایتی زنانہ لباس کے بجائے بھاری ’’بوٹ‘‘، جینز اور اوور کوٹ پہن کرنا یوں کے ہتھیار بلیڈ کے ساتھ کارروائی سے پتا چلتا ہے کہ کھسروں نے مزید کاروباری طریقے اختیار کرنا شروع کردیے ہیں۔ اب جب کہ کھسروں نے اپنے کاروبار یا روایتی طور طریقوں میں جدت اور وسعت پیدا کرلی ہے تو امید ہے کہ مختلف شعبوں میں ان کی طلب بڑھ جائے گی۔ ہوسکتا ہے آئندہ بینک گارڈز کی بھرتی کے لیے ان کھسروں کو زیادہ مواقع ملیں۔ کھسرا یونٹس اور کھسرا پولیس کی کامیابی کے بعد مختلف اداروں کی طرف سے اخبارات میں اس طرح کے اشتہارات نظر آیا کریں گے۔

’’ایک کھسرا درکار ہے۔ تجربہ کار ریٹائرڈ کھسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ حاضر سروس کھسرے بھی درخواست دینے کے اہل ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ!

حالیہ کارروائیوں سے کھسروں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے۔ ثابت یہ ہوا ہے کہ کھسرے بغیر ہتھیاروں کے بھی لڑ سکتے ہیں۔ تربیت ان کی صلاحیتوں کو نکھار بخشے گی۔ کھسروں کو کارآمد شہری بنانے پر توجہ دی جائے تو ان کو باعزت روزگار اور مفید کام مل جائیں گے اور ملک وقوم اور اداروں کو اصلی، نسلی ’’معلوم‘‘ کھسرے!