خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ پنجاب میں دو ڈھائی برس سے ہتک عزت کا غیر اعلانیہ اور غیر تحریری قانون ہی نافذ ہے۔ لاہور کے وسط کی تین خواتین یاسمین راشد، صنم جاوید اور عالیہ حمزہ کی سال بھر سے گرفتاری اسی قانون کا شاخسانہ ہے۔ یہ خواتین اپنے سیاسی حریفوں بالخصوص پنجاب کی موجودہ وزیر اعلیٰ مریم نواز پر کڑی تنقید کرتی رہی ہیں اور سال بھر کی اسیری کے بعد اپنے ماضی پر شرمندہ اور نادم ہونے سے انکاری ہیں۔ ان کی رہائی ایک پریس کانفرنس کی مار ہے مگر وہ اس پریس کانفرنس سے انکار کرکے اپنی اسیری کو طویل سے طویل تر بنا رہی ہیں۔ اب اسی غیر تحریری قانون کو تحریری بنانے کی خاطر پنجاب اسمبلی نے نہایت عجلت میں ہتک عزت کا قانون منظور کر لیا ہے جس کے تحت کسی کی عزت اُچھالنے، غلط اور بلا ثبوت الزامات عائد کرنے، ساکھ مجروح کرنے پر سخت سزائیں دی جائیں گی۔ اپوزیشن نے اس قانون کی منظوری کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان سے واک آوٹ کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ پہلے یہ قانون وفاقی سطح پر منظور کیا جانا چاہیے تھا بعد میں اسی کی روشنی میں اس قانون کا دائرہ صوبے تک بڑھایاجاتا۔ بہرحال قانون اب منظور ہوگیا ہے اور اس پر عمل درآمد کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ جس طرح سوشل میڈیا بلکہ کہیں کہیں ریگولر میڈیا بھی فیک نیوز اور فیک بیانیوں کے فروغ کے لیے پروپیگنڈہ مشین بن کر رہ گیا ہے اس میں سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنا قطعی ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ جھوٹ کو اس اعتماد اور یقین کے ساتھ بیچا جاتا ہے کہ عام آدمی کو اس پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے اگر سچ کا گمان نہ بھی ہو تب بھی عام آدمی کا کنفیوژن بڑھ جاتا ہے۔ جس سے معاشرے میں ہیجان افراتفری اور فکری انتشار کو فروغ ملتا ہے اور ایک منتشر ذہن کا حامل معاشرہ کبھی یکسوئی کے ساتھ ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ اس کی توجہ اور دھیان یقین اور غیر یقینی کے درمیان معلق ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا کے آنے کے ساتھ یہ قباحتیں بڑھ گئی ہیں۔ اس سے عام آدمی کو اپنا ذاتی غصہ فرسٹریشن، محرومی دور کرنے کا ایک غیر منظم موقع میسر آگیا ہے۔ جس شخص کے پاس اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ پیکیج ہے وہ اپنی پسند کو دنیا کی سب سے بڑی سچائی بنا کر پیش کرنے اور اسے بازار میں فروخت میں کرنے کو فرض عین سمجھنے لگا ہے۔ ایسے میں جدید ذرائع ابلاغ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اداروں اور قوانین کی ضرورت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والا قانون اگر اس ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر بنایا گیا ہے تو اچھا ہے مگر ہمارا مسئلہ کچھ اور بھی ہے۔ قوانین کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں۔ قوانین میں ہم خود کفیل ہیں کچھ انگریز کے بنائے ہوئے قوانین اور کچھ ہمارے اپنے قوانین معاشرے کو منظم منضبط اور مستحکم بنانے کے لیے کافی ہیں۔ مسئلہ قوانین پر عمل درآمد کا ہے یا پھر قوانین کے درست استعمال کا۔ ان دونوں معاملات میں ہم من حیث القوم کمزور ہیں۔ قانون کی مجموعی حکمرانی ہی جب کمزور ہو تو پھر رنگ برنگے قوانین کا جنگل بھی کسی کام نہیں آتا بلکہ اس سے عام آدمی کو انصاف نہیں ملتا۔ جب کوئی معاشرہ قانون کی حکمرانی کا عہد کرتا ہے تو پھر تعداد میں کم قوانین بھی معاشرے کو مستحکم رکھ سکتے ہیں۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں کی ماں برطانیہ کا حال دیکھیں جہاں صدیوں سے ملک کسی تحریری دستور کے بغیر محض روایات پر چل رہا ہے۔ اس لیے عزم صمیم ہو تو تحریری قوانین کے بغیر بھی قانون کی حکمرانی قائم کی جا سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہم قوانین کے غلط استعمال میں بھی ید ِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ ہتک عزت کے اس قانون میں یہ احتیاط لازم ہے کہ اس کی زد آزادیٔ اظہار پر نہ پڑنے پائے کیونکہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔
پاکستان میں پہلے ہی آزادیٔ اظہار کا دائرہ سکڑ رہا ہے اور یہ صرف پاکستان ہی کا معاملہ نہیں بلکہ دنیا بھر میں آزادی ٔ اظہار کا قافیہ تنگ ہورہا ہے۔ کئی جمہوریتیں اتھاریٹیرین ازم کے رنگ ڈھنگ اپنا رہی ہیں۔ مغربی ملکوں ہی کو دیکھ لیں جو آزادی ٔ اظہار کے بڑے چمپئن تھے وہاں بھی آزادیٔ اظہار کا وہ میعار باقی نہیں رہا جو دو تین دہائی قبل مروج تھا۔ بھارت تو آزادیٔ اظہار کا مقتل بن گیا ہے اور وہاں ایک میڈیا کی ایک نئی شکل ’’گودی میڈیا‘‘ کی صورت میں غالب آئی ہے۔ گویا کہ وہ میڈیا جو مودی کی گود میں بیٹھ کر حالات وواقعات کی رپورٹنگ کرتا ہے۔ چین اور روس کو تو چھوڑیں یہ ان ملکوں کی بات ہو رہی ہے جو آزادی ٔ اظہار اور شہری آزادیوں کے بزعم ِ خود علمبردار بنتے تھے۔ حریت فکر اور حریت اظہار سے معاشرے گھٹن کا شکار نہیں ہوتے پریشر ککر کی طرح ان کی بھاپ مسلسل نکلتی رہتی ہے اور کسی دھماکے اور حالات کے اچانک خراب ہونے کا احتمال باقی نہیں رہتا۔ اس لیے پنجاب حکومت کو منظور کیے جانے والے قانون میں ان سب باتوںکو پیش نظر رکھنا چاہیے۔