بیکری مالکان اشیا پرکروڑوں روپے کا ٹیکس بھی ہڑپ کرنے لگے

552
taxes on goods

کراچی: کراچی میں مٹھائی اور بیکری مالکان ماہانہ کروڑوں کا ٹیکس عوام سے وصول کرنے کے باوجود خزانے میں جمع نہیں کروارہے۔

حکومت کی جانب سے لگائے گئے 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس وصولی کی رسید ہی نہیں دی جاتی، صارفین کے مطالبے پر رش اور وقت کی کمی کا بہانہ بنا کر ٹال دیا جاتا ہے، ہزاروں صارفین روزانہ کی بنیاد پر بیکری ایٹم خریدتے ہیں مگر رسید نہ بننے کی وجہ سے ٹیکس خزانے کا حصہ بنتا ہی نہیں ہے۔

تفصیلات کے مطابق حال ہی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے نان فائلرز کی سم بند کرنے جیسے اقدامات قابل تحسین ہیں مگر ایف بی آر حکومت کی جانب سے پہلے کے اقدامات کو قابل عمل بنانے میں مکمل ناکام ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے مٹھائی آیٹمز پر 18فیصد جی ایس ٹی عائد کیا گیا ہے، ٹیکس کی وصولی کا طریقہ کار یہ وضع کیا گیا کہ بل کمپیوٹرائزڈ ہوگا اور جیسے ہی پیڈ رسید سسٹم سے باہر نکلے گی 18فیصد ٹیکس خود باخود قومی خزانے میں جمع ہوجائے گا تاہم دکانداروں نے شہریوں کو رسید دینے سے ہی گریز کرنا شروع کردیا جس سے روزانہ کی بنیاد پر خزانے کو لاکھوں کا چونا لگایا جارہا ہے جبکہ صارفین سے ٹیکس کی مد میں پیسے وصول کیے جارہے ہیں۔

محتاط اندازے کے مطابق اس وقت کراچی میں بیکری، نمکو اور مٹھائیوں کے 100 بڑے برانڈز سمیت چھوٹی و بڑی 25ہزار سے زائد دکانیں موجود ہیں اور ان میں بڑے برانڈز کی حامل بیکریوں پر روزانہ لاکھوں روپے کی مصنوعات فروخت کی جاتی ہیں۔ ذرائع سے انکشاف ہوا ہے کہ 90 فیصد صارفین کو جی ایس ٹی وصولی پر مبنی رسید فراہم نہیں کی جارہی اور چند بڑے برانڈز ہی صارفین کو پکی رسید فراہم کررہے ہیں۔

جن بیکریوں پر پکی رسید فراہم نہیں کی جارہی وہ مصنوعات کی فروخت پر صارف سے 18فیصد سیلز ٹیکس باقاعدگی سے وصول کررہے ہیں جس کا فائدہ سرکاری خزانے کے بجائے بیکری مالکان خود اٹھا رہے ہیں۔ ایم اے جناح روڈ پر واقع کراچی کی معروف بیکری آئٹمز، مٹھائیوں اور حلوہ جات کے حوالے سے مقبول دکان دلپسند سوئٹس اور فوڈ بیکرز کے مختلف برانچوں پر روزانہ9ہزار سے زائد صارفین مختلف اشیاءکی خریداری کرتے ہیں،ان صارفین سے دلپسند سوئٹس پر حکومت کی جانب سے عائد کردہ18فیصد سیلز ٹیکس وصول توکیا جارہا ہے مگر پکی رسید صرف صارف کے طلب کرنے پر ہی دی جاتی ہے۔

دلپسند سوئٹس کی دکان پر جب بعض صارفین نے خریداری کی تو انہیں پکی رسید فراہم نہیں کی گئی اورایف بی آر کے حکم پر پوئنٹس آف سیلز پر ایک روپیہ بھی وصول کیا گیا،جب پکی رسید مانگی گئی تب ہی یہ رسید فراہم کی گئی۔ دلپسند کے کاﺅنٹرپر موجود شخص نے کہا کہ جو لوگ ہم سے رسید مانگتے ہیں انہیں ہم پکی رسید فراہم کردیتے ہیں لیکن وہ اس بات کا جواب نہ دے سکے کہ وہ ازخود صارف کو پکی رسید فراہم کیوں نہیں کررہے ہیں۔

اسی طرح شہر کی مختلف بیکریوں اورسوئٹس شاپس مالکان کی جانب سے صارفین کو سرے سے رسید ہی نہیں دی جاتی۔ اس طرح صارفین سے وصول کیا جانے والا18فیصد سیلز ٹیکس پکی رسید صارف کو نہ دیئے جانے سے سرکاری خزانے میں جانے کے بجائے بیکریوں اور سوئٹس شاپس مالکان کی جیبوں میں جارہا ہے۔

واضح رہے کہ ایف بی آر نے کنفیکشنری کے تمام ہی آئٹمز پر18 فیصد جی ایس ٹی عائد کرکے دکانداروں کو اس بات کا پابند کیاتھا کہ وہ صارفین کو پکی رسید فراہم کریں، لیکن کسی بھی قسم کا کوئی میکنزم اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے سے دکانداروں کی چاندی ہوگئی اور کئی سال سے وہ لوٹ مار میں مصروف ہیں اور ایف بی آر کی جانب سے جی ایس ٹی کی وصولی صرف احکامات تک ہی محدود رہی، جبکہ صارفین کو اضافی بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے اور ان سے باقاعدگی سے جی ایس ٹی کی مد میں کروڑوں روپے وصول کیے جارہیں ہیں۔

جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد مٹھائی کی قیمت1200 سے بڑھ کر1400 اور حلوہ جات 1800 روپے فی کلو پر پہنچ گیاہے۔ اس وقت شہر قائد کے بیکری اور مٹھائی شاپس مالکان فیڈریل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سیلز ٹیکس وصول کرنے کے باوجود صارفین کو پکی رسید فراہم نہیں کررہے جس کی وجہ سے وصول کیا گیا سیلزٹیکس سرکاری خزانے میں جانے کے بجائے بیکری،نمکو اورسوئٹس مالکان کی تجوریوں میں جارہا ہے۔

صارفین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت سندھ اور متعلقہ ادارے اس معاملے کی انوسٹی گیشن کریں تو حکومتی خزانے میں کروڑوں روپے آسکتے ہیں۔

اس حوالے سے موقف جاننے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کے ذمہ داران سے متعدد بار رابط کرنے کی کوشش کی تاہم ان سے رابط نہیں ہوسکا تو وزیر اعلیٰ سندھ کے پرائیویٹ سیکرٹری سید عبداللہ شاہ سے رابط کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سندھ حکومت کا متعلقہ ادارہ جلد ان مٹھائی کی دکانوں اور بیکری مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کرے گا تاکہ کراچی کے شہریوں سے کئی سال سے وصول کیے جانے والے جی ایس ٹی کی مد میں کروڑوں روپے سرکاری خزانے میں جمع ہوسکے۔