چلو چلو دبئی چلو (آخری حصہ)

622

شرجیل میمن نے بھی اس معاملے میں قوم کو مایوس نہیں کیا۔ ان کے اور ان کی اہلیہ کے نام بھی دبئی میں 5جائدادیں ہیں۔ جن میں سے تین ان کی اہلیہ کے نام اور دو ان کے نام ہیں۔ آج بھی برلنگٹن ٹاور میںایک آفس شرجیل میمن کی اہلیہ کے نام پر ہے جو انہوں نے 2018 میں خریدا تھا۔ 2012 میں انہوں نے دی میڈوس میں چار بیڈرومز پر مشتمل بنگلہ 11لاکھ 70ہزار ڈالرز میں خریدا تھا جس کی موجودہ مالیت 25لاکھ سے 35لاکھ ڈالرز کے درمیان ہے۔

فیصل واوڈا جو اپنے عناد اور خفگی کو جارحانہ انداز سے بیان کرنے میں تکلیف دہ حدتک چلے جاتے ہیں اس ٹولے میں شامل ہیں۔ ڈیٹا لیک میں ان کے نام پر دو جائدادیں ہیں۔ جنوری 2024 تک ان کے نام 2013 میں دبئی مرینہ کے اسکن مرینہ ٹاور میں خریدا گیا ایک اسٹوڈیو اپارٹمنٹ تھا۔ اس کے علاوہ اٹلانٹک ٹاور ون میں بھی ایک یونٹ ان کے نام پر تھا۔ اس کے علاوہ ملائشیا کے ایک ریزورٹ میں دو یونٹس اور برطانیہ میں متعدد جائدادوں کے وہ مالک ہیں جن میں 19-20 ہائیڈ پارک پیلس، 292 ایلگین ایونیو اور ایڈگ ویئر روڈ کے قریب 177 کواڈرینکل ٹاور شامل ہیں۔

فرح گوگی جس نے ملک کے وزیراعظم عمران خان کو اپنا وکیل صفائی کررکھا تھا کہ وہ ٹی وی پر فرح کی صفائیاں پیش کرتے تھے، عمران خان اور محترمہ پنکی پیرنی جن کے ذریعے پوسٹنگز، ٹرانسفر، پروموشن، پلاٹ الاٹ منٹ وغیرہ میں بڑی بڑی رقومات کھاتی تھیں، پیلے رنگ کے لباس اور ہینڈ بیگ میں جہاز کی نشست پر بیٹھی ہوئی جن کی تصویر بہت وائرل ہوئی تھی وہ بھی دبئی میں جائدادیں خریدنے والوں میں شامل ہیں۔ یادش بخیر جنرل عاصم منیر جو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے فرح گوگی اور محترمہ خاتون اوّل کی کرپشن کی فائلیں لے کر عمران خان کے پاس گئے تھے۔ اس بے حرمتی اور لوٹ مار پر عمران خان نے فوری ایکشن لیا تھا، فرح گوگی اور اپنی بیگم کے خلاف نہیں بلکہ جنرل عاصم منیر کے خلاف اور جنرل قمر جاوید باجوہ سے کہہ کر انہیں عہدے سے ہٹوا دیا تھا۔ یہیں سے عمران خان اور جنرل عاصم منیر کے درمیان اختلافات کا آغاز ہوا تھا۔

تقریباً12جنرلوں کے نام بھی دبئی لیکس میں شامل ہیں۔ جن میں مرحوم جنرل پرویز مشرف کا نام بھی موجود ہے جو کسی رئیس خاندان سے نہیں بلکہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ان کے والد سرکاری نوکری رکھتے تھے اس کے باوجود ان کے نام دبئی میں ایک پینٹ ہائوس ہے۔ ایک جنرل کی تنخواہ اتنی نہیں ہوتی کہ وہ ایسی مہنگی جائداد خرید سکے۔

دبئی متحدہ عرب امارات کا وہ شہر ہے جس نے دنیا کی ترقی یافتہ معیشتوں کو ناکوں چنے چبوائے ہوئے ہیں۔ دبئی کی معیشت کا انحصار تعمیراتی اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ہے جو ملکی معیشت کا پچاس فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے جو دیوہیکل کرینیں استعمال کی جاتی ہیں دنیا بھر میں ان کی کل تعداد کا نصف دبئی میں موجود ہے۔ یہاں دنیا کا بہترین انفرا اسٹرکچر ہے۔ کاروباری لوگوں کو جو سہو لتیں یہاں ملتی ہیں کہیں نہیں ملتیں اس لیے دبئی کو منی لانڈرنگ لارڈز کی جنت کہا جاتا ہے۔

دبئی چلو کئی دہائیوں سے پاکستان بھارت اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں مشہور نعرہ ہے جہاں سے رئیل اسٹیٹ میں بہت پیسہ دبئی آیا۔ دبئی میں پراپرٹی کی خریداری میں پاکستانی اکثر ابتدائی نمبروں میں سے کسی ایک نمبر پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ 2024 میں دبئی میں پاکستانیوں کی 12ارب ڈالزز سے زائد کی پراپرٹی پر لوگ حیران ہیں جب کہ 2013 میں دبئی میں پاکستانیوں کی پراپرٹی کی خریداری کا تخمینہ 6ارب 60 کروڑ ڈالر تھا۔

دبئی ان لاکڈ کے مطابق دبئی میں سب سے زیادہ پراپرٹیز بنانے والوں میں بھارت سرِ فہرست ہے۔ بھارت کے 29 ہزار 700 شہریوں کی دبئی میں 35 ہزار سے زائد پراپرٹیز کی نشان دہی ہوئی ہے۔ ان جائدادوں کی مالیت کا اندازہ لگ بھگ 17 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ دبئی ان لاکڈ کا اصل نشانہ یہی لوگ ہیں۔ مودی جی الیکشن کے بعد جن سے نمٹیں گے۔ واضح رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بیرون ملک تو کجا بھارت میں بھی کوئی جائداد نہیں ہے۔ ان کے پاس کل تین کروڑ روپے کے اثاثے ہیں۔ دبئی میں پراپرٹیز کی ملکیت میں پاکستانی دوسرے نمبر پر ہیں۔ 17 ہزار پاکستانیوں کی دبئی میں ساڑھے 12 ارب ڈالرز کی 23 ہزار جائدادیں ہیں جب کہ اس کے بعد سعودی عرب اور برطانیہ کے شہری سب سے زیادہ دبئی میں پراپرٹیز کے مالک ہیں۔

یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ ’دبئی ان لاکڈ‘ میں صرف ان لوگوں کے نام ظاہر کیے گئے جن کا تعلق مفادِ عامہ سے ہے یا ان پر بین الاقوامی پابندیاں عائد ہیں۔ ڈیٹا میں ٹیکس چوری اور مالیاتی جرائم کے شواہد موجود نہیں ہیں اور نہ ہی رہائشی تفصیلات، آمدنی کے ذرائع، کرائے کی آمدنی پر ٹیکس ادائیگی کی تفصیلات یا فروخت پر حاصل ہونے والے منافع جیسی معلومات ہیں۔ جائدادوں کے بہت سے مالکان بالخصوص وہ جنہوں نے کسی تیسرے فریق یا غیر معروف کمپنی کی مددسے جائدادیں خریدیں ہیں ان کے نام دبئی لیکس میں موجود نہیں۔ جو لوگ دبئی لیکس کے سامنے آنے کے بعد یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی دولت جائز ہے، جائز طریقے سے دبئی منتقل کی گئی ہے اور انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی گئی ہے ان کی یہ سب باتیں بجا لیکن پھر بھی یہ سوال تو بنتا ہے کہ آپ حکمران طبقات میں شامل ہیں، آپ کا اس ملک پر اتنا بھی اعتبار نہیں کہ اپنی دولت یہاں رکھ سکیں، یہاں انوسٹ منٹ کرسکیں، اتنے خوبصورت ملک کو چھوڑ کر آپ نے محلات بنانے کے لیے دبئی کے ریگستانوں کا رخ کیوں کیا جہاں ریت ہی ریت ہے، گرمی ہی گرمی ہے۔ کچھ تو ایسا ہے نہ دبئی جس کی پردہ داری کرتا ہے۔

دبئی لیکس میں پاکستانیوں کی دبئی میں جائدادوں کا تخمینہ 12ارب ڈالر ظاہر کیا گیا ہے بعض حلقوں کے نزدیک جس میں کوئی حیرت کی بات ہے اور نہ اچنبھے کی۔ یہ محض پہلی قسط ہے۔ پاکستان میں جتنی کرپشن ہے، رشوتوں کے حوالے سے عہدوں کا ناجائز استعمال ہے، ٹیکس چوری ہے اس میں جو بڑے بڑے مگرمچھ ہیں وہ سوئٹزر لینڈ جیسے جمہوری یورپی ممالک کارخ کرتے ہیں جہاں کے مالیاتی اداروں کے قواعد ضوابط اور قوانین انہیں کشش کرتے ہیں جو ان اداروں کے لیے سیاسی حکومتیں بناتی ہیں۔ جہاں مالیاتی اداروں اور حکومتی قوانین میں اتنی گنجائش رکھی جاتی ہے کہ جو بھی، جہاں سے بھی اور جتنی دولت لائے اسے ملک میں آنکھیں بند کرکے خوش آمدید کہا جائے۔ سب کچھ خفیہ کھاتوں میں، مکمل رازداری کے ساتھ ایک خاموش معاہدے کے تحت۔ دبئی میں بھی یہی ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ہیں جو ایک گھنٹہ بیس منٹ کے فاصلے پر موجود پاکستان میں چھوٹے اور متوسط چوروں کے لیے بہت پر کشش ہے۔

یہ اس نظام کی ناکامی ہے کہ جو لوگ اس ملک اور اس نظام کو چلانے پر مامور ہیں وہی اس کی سلامتی سے خائف ہیں اور پاکستان کے بجائے امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور دبئی میں جائدادوں کی خریداری اپنی دولت اور اولاد کے مستقبل کے لیے محفوظ خیال کرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام کو خیرباد کہہ کر اسلامی نظام خلافت کو قائم کیا جائے جو اس کرپٹ اشرافیہ سے لوٹی ہوئی دولت ضبط کرکے اس ملک کے غریب عوام پر خرچ کرے گا۔