ماضی مت بھولیے

466

برصغیر میں ایک ایسا بادشا ہ بھی گزرا ہے جو ہر روز اپنا محاسبہ کرتا تھا اور ماضی کو یاد کرتا تھا۔ اپنی صبح کا آغاز کچھ اس طرح سے کرکے دربار میں بیٹھتا تھا کہ اس کا ماضی اس کے ساتھ ساتھ چلتا، ماضی کو یاد رکھنے پر ہی وہ بہتر فیصلے کرتا اور کسی کو اس کے ہاتھ اور زبان سے تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ ویسے بھی انسان کا اصل رُخ اس وقت سامنے آتا جب اسے کسی سطح کا کوئی اختیار اور کسی حد تک اقتدار ملتا ہے، تب پتا چلتا ہے کہ وہ ان لوگوں سے کیا سلوک کرتا ہے جو اس کی رعیت میں دیے گئے ہیں، بدتر انسان وہی ہوتا ہے کہ اختیار مل جانے کے بعد لوگوں کو اپنے دانتوں میں چبانے کی کوشش کرے اور بہتر انسان وہی ہوتا ہے صلہ رحمی اور انصاف سے کام لے۔ ہمارے نبی مہربانؐ تا قیامت صلہ رحمی کی بہترین مثال رہیں گے۔ لیکن کیا کیجیے کہ آج کا مسلمان سب کچھ بھو ل گیا ہے۔ اقدار بھی بھول گیا ہے اور رکھ رکھائو اور وضع داری صلہ ٔ رحمی تو بہت دور کی بات ہے۔ کسی پر احسان کرکے اسے تلخ لہجے میں جتلا دینے کا زمانہ آگیا ہے۔ آج تو پھل کھا کر چھلکے گھر کی دہلیز پر رکھنے کا رواج ہے اور کوئی توجہ بھی نہیں دلاتا کہ بھائی یہ کیا کر رہے ہو! کیوں کسی کا دل جلاتے ہو۔

گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں ایک بحث ہوئی حکومت اور اپوزیشن نے دل کھول کر ایک دوسرے پر تیر برسائے، بات ایک دوسرے کے بزرگوں اور والدین تک بھی گئی اُف کیا تماشا تھا‘ اسمبلی میں۔ دونوں اطراف سے یہی دعوے کیے گئے ہمارے دامن صاف ہیں۔ ہم نے کبھی آئین شکن کا ساتھ نہیں دیا۔ کس نے کب کس کا ساتھ دیا تاریخ میں سب کچھ موجود ہے، ہاں اگر نہیں تو ہمارے اسلاف موجود نہیں جنہوں نے ہمیشہ اصول کی بات کی۔ ہمارے اسی معاشرے میں کیسے کیسے لوگ گزرے ہیں۔ عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبد الستار خان نیازی، ماسٹر تاج الدین، مولانا مظہر علی اظہر، مولانا عبد الغفور ہزاروی، مولانا سید ابو الا اعلیٰ مودودی، مولانا ابو ذر بخاری، صاحب زادہ فیض الحسن، چودھری غلام محمد، میاں طفیل محمد، ڈاکٹر نذیر احمد شہید، پروفیسر غفور احمد، نعمت اللہ خان اور بہت سے نام ہیں۔ یہ نام وہ ہیں جنہوں نے گردن نہیں جھکائی مصائب برداشت کیے، مشکلات جھیلیں، قید و بند برداشت کی، اذیت سہی، عقوبت خانوں میں دن گزارے، ہمیں ان سب کی زندگیوں کو ایک بار پھر سے پڑھنا چاہیے۔

عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبد الستار خان نیازی، ماسٹر تاج الدین، مولانا مظہر علی اظہر، مولانا عبد الغفور ہزاروی، مولانا سید ابو الا اعلیٰ مودودی، مولانا ابو ذر بخاری، صاحب زادہ فیض الحسن جیسے راہنمائوں نے 1953 قادیانیوں کے خلاف تحریک میں بے مثال حصہ لیا۔ سزائے موت تک سنائی گئی مگر اللہ کے بندے اللہ ہی کے بندے بن کر رہے۔ ان میں سے کسی کی ’’پلیٹیں‘‘ کم ہوئی نہ زیادہ، کسی نے یہ فرمائش نہیں کی کہ اسے دیسی مرغی کھانے میں دی جائے، ایکسر سائز کے لیے سائیکل دی جائے۔ ایک شخصیت چودھری غلام محمد کی بھی ہے اللہ نے ہمہ جہت صفات اور اوصاف سے نوازا تھا۔ وہ کم گو لیکن اپنے شخصی اوصاف اور عملی زندگی میں ہمہ وقت لوگوں کی خدمت میں مصروف رہنے والی شخصیت تھے۔ میاں محمد شوکت، میاں محمد علی، مولانا جان محمد بھٹو، مولانا جان محمد عباسی، محمد شفیع نظامانی، چودھری غلام محمد سراپا ایثار کیش آدمی تھے۔

1962 میں مارشل لا ختم کرکے سیاسی جماعتوں کو بحال کیا تو جماعت اسلامی کے پاس اپنے دفتر کے لیے کوئی جگہ نہ تھی تو چودھری غلام محمد صاحب نے آرام باغ روڈ پر واقع اپنا فلیٹ جس میں وہ رہائش پزیر تھے خالی کرکے جماعت اسلامی کو دے دیا 1969 میں چودھری غلام محمد ہی نے ڈھاکہ سے روزنامہ ’’سنگرام‘‘ اور کراچی سے روزنامہ ’’جسارت‘‘ جاری کیا جسارت پہلے ملتان سے شائع ہوا‘ اس وقت ’’لیفٹ‘‘ کا ملتان میں بہت زور تھا اس لیے شاید جہاں ترقی پسندوں سے پالا پڑا اور متعصب گروہ کی وجہ سے ملتان سے جسارت کی اشاعت بند ہوگئی‘ ان دنوں ادارہ اردو ڈائجسٹ کے تحت اشاعت ہوئی تھی ایوب خان کے دور میں کراچی میں حلقہ صحافت قائم کیا۔ کیا وہ لوگ تھے‘ کیا ان کا کردار تھا اور کس مضبوط ارادوں کے وہ مالک تھے، انہیں کیا پتا تھا کہ ان کے بعد صحافیوں کی کوئی ایسی کھیپ آئے گی جو صحافت نہیں بلکہ پی آر کرے گی۔ اپنے کالموں میں دوسروں کی پگڑیاں اچھالے گی۔ جن میں صرف ’’میں‘‘ ہوگی، جب بھی لکھیں گے دل میں میل جما کر لکھیں گے، ہاں مگر ایک بات ہے کہ صرف جسارت کا ماضی شاندار تھا اور مستقبل بھی تابناک ہے کیونکہ جسارت اپنے اسلاف کو نہیں بھولا ہے۔