جھومے گا پنجاب، ناچے گا پنجاب، گائے گا پنجاب

582

دنیا کے ہر ملک کے لیے اس کا آئین اس کی سب سے اہم دستاویز ہوتی ہے۔ اسی دستور کے مطابق ملک کے قوانین وضع کیے جاتے ہیں اور اسی کی پابندی ملک کے ہر خاص و عام شہری پر فرض ہوتی ہے اس کے خلاف کوئی بھی عمل ہو وہ ایک سنگین جرم سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دستور کو معطل کردینا تو کجا اس کی ایک شق کو بھی معطل کرنا ملک کے ساتھ غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ جس طرح کمیونزم ایک نظریہ ہے اور جن ممالک کا نظریہ کمیونزم ہے وہاں کا دستور بھی اسی کے مطابق ہے وہاں کوئی فرد اگر کمیونزم کے خلاف کوئی بات کہہ دے بھلے وہ بات ٹھیک بھی ہو مگر یہ عمل وہاں کے آئینی لحاظ سے ملک سے غداری قرار پاتا ہے جس کی کڑی سزادی جاتی ہے جس کی مثال روس ہے اس نے کمیونزم پر صرف تنقید کرنے والے لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے یا ان لوگوں کو ملک سے فرار ہوکر اپنی جان بچانی پڑی ہے اسی طرح سوشل ازم ہے اس پر بھی تنقید کرنے والوں کو ان ممالک سے فرار ہوکر جان بچانی پڑی ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان دنیا کا بدنصیب ملک ہے جو کہ لاکھوں مسلمانوں کی جانوں کی قربانیوں کے بعد وجود میں آیا یہ ساری قربانیاں صرف اور صرف اسلام کی وجہ سے دی گئی تھی۔ اگر تحریک پاکستان میں سب کچھ ہوتا اور اسلام نہ ہوتا تو یہ ملک کبھی وجود میں نہ آتا۔ مگر ان سب کے باوجود اس ملک میں سب کچھ ہے اسلا م ہی نہیں ہے اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کا جب جی میں آتا ہے وہ اسلام پر اور اس ملک کے دستور پر حملہ آور ہوتا ہے۔ دستور کی ایک شق نہیں بلکہ پورے دستور ہی کو معطل کردیتا ہے اس کے باوجود وہ ملک کے اہم عہدوں پر بھی موجود رہتا ہے اور کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا اور تو اور وہ مرنے کے بعد اکیس توپوں کی سلامی بھی لے مرتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں ناچ گانوں کے مقابلے اور اس پر انعامات کا نوٹیفکیشن ہے۔ کیا پاکستان کے دستور میں یہ بات واضح نہیں ہے کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جوکہ قرآن و سنت سے متصادم ہوگا۔ محکمہ تعلیم کا یہ نوٹیفکیشن ایک حکم نامے کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے مطابق تمام تعلیمی ادارے اپنے یہاں ناچ گانوں کا یہ مقابلہ کروانے کے پابند ہوں گے۔ اس نوٹیفکیشن یا نسل نو کے خلاف یا دوسرے لفظوں میں پاکستان کے مستقبل کے خلاف اس گھنائونی سازش کو اگر اس کانفرنس کے تناظر میں دیکھ لیا جائے تو بات سمجھنے آسانی ہوگی کہ ہم کس طرح اغیار کی سازشوں کا شکار ہورہے ہیں۔

ابھی پاکستان بنے ہوئے دوماہ اور تیرہ دن ہوئے تھے کہ 27 نومبر 1947 سے یکم دسمبر 1947 کو جو پہلی کانفرنس ہوئی وہ پاکستان کی پہلی تعلیمی کانفرنس تھی جو دارالحکومت کراچی میں منعقد ہوئی تھی۔ وجود میں آنے والی ریاست کو چاروں طرف سے مسائل نے گھیر رکھا تھا۔ تمام مسائل اپنی جگہ بہت گمبھیر تھے مگر ان میں سب سے پہلے توجہ دینے کے لیے جو مملکت کے مستقبل کا مسئلہ قائدین کو نظر آیا وہ تعلیم کا مسئلہ تھا تاکہ اپنی نسل نو کو ایک روشن منزل کی طرف گامزن کرسکیں اور نسل نوکو اسلام اور پاکستان کی خدمت کے لیے تیار کرسکیں ایسا صرف تعلیم و تربیت کے ذریعے ہی ہوسکتا تھا۔ تحریک آزادی کے یہ سپاہی جو کہ ابھی ابھی انگریزوں سے ایک ایسی جنگ جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ جوکسی عسکری لڑائی کا نتیجہ نہ تھی بلکہ خالص اخلاقی، قانونی اور آئینی جنگ کا نتیجہ تھی۔ جس میں نظریے نے اندھی طاقت کو عوامی اتحاد اور جذبہ ایمان نے ہرایا تھا۔ اگرچہ اس کانفرنس میں قائد اعظم خرابی صحت کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے مگر ان کی فکر مندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے پیغام کے ذریعے اس تین روزہ کانفرنس میں شرکت کی اور اس کانفرنس میں جو قومی تعلیمی پالیسی کا مسودہ تیار ہوا اس کا مسودہ قائداعظم نے منگوا کر بغور مطالعہ کیا اور اس کی ستائش بھی فرمائی۔ کالم کی طوالت کے خوف سے اس تعلیمی کانفرنس کی ساری کارروائی جو اہم تو ہے مگر اس کے خاص نکات کو یہاں ترتیب وار درج کیا جارہا ہے جو یونیورسٹی سطح پر، ثانو ی سطح پر، دختران پاکستان کے لیے اور اقلیت برادری کے لیے ہے۔ اس کمیٹی نے بالاتفاق طور پر طے کیا کہ:

• پاکستان کا تعلیمی نظام، اسلامی نظریے کی بنیاد پر مرتب کیا جائے گا۔
• مسلمان طالب علموں کے لیے اسکولوں اور کالجوں میں دینی تدریس لازمی ہوگی، اور یہی سہولت دیگر مذاہب کے حاملین کو بھی فراہم کی جائے گی۔
• تمام سطحوں پر جسمانی تربیت لازمی دی جائے گی، جب کہ کالج اور یونی ورسٹیوں میں لازمی فوجی تربیت دی جائے گی۔
دوسری رپورٹ ہے، کمیٹی برئے پرائمری اور ثانوی تعلیم کی۔ اس کمیٹی کے چیئر مین ڈھاکا کے ابو نصر وحید تھے اور سیکرٹری محمد عبدالقیوم ایجوکیشن آفیسر تھے اس کمیٹی کے ارکان نے جو رہنما اصول پیش کیے وہ یہ ہیں۔

1۔ تعلیم، اسلامی نظریہ، آفاقی اخوت، سماجی جمہوریت، اور سماجی عدل و انصاف کی ترویج پر مبنی ہوگی۔
2۔ طالب علموں کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنے مذاہب کے بنیادہ اصولوں کو پڑھیں۔
3۔ تعلیم روحانی، سماجی اور فنی امتزاج پر استوار ہوگی۔
خواتین کی تعلیم کے لیے کمیٹی نے رہنما اصول پیش کیے جو یہ تھے
• تعلیم کی نظریاتی بنیادوں میں: اسلام کے آفاقی تصور اخوت و بھائی چارے، سماجی جمہوریت، سماجی عدل و انصاف اور جمہوری قدروں کی ترویج ہوگی جس میں برداشت، خود انحصاری، ذاتی ایثار، انسانی ہمدردی اور شہری اشتراک کو ترقی دی جائے گی، جب کہ صوبائی تعصبات کی نفی کی جائے گی۔
• ثانوی درجہ تعلیم میں لڑکیوں کے لیے جداگانہ تدریس کا بندوبست کیا جائے، اور جلد ازجلد لڑکیوں کے لیے الگ کالج بنائے جائیں۔
• ہوم نرسنگ کی تعلیم پر مبنی نصاب کی تدریس لازمی کی جائے۔ ابتدائی طبی امداد اور ہوم نرسنگ، اعلیٰ ثانوی درجہ تعلیم میں بھی لازمی کی جائے۔
مغربی اور مشرقی پاکستان میں خواتین کے لیے فی الفور ایک ایک میڈیکل کالج قائم کیا جائے۔

ان رہنما اصولوں کو چھوڑ کر جو تعلیمی پالیسی اختیار کیا جارہا ہے اس کی رو سے ہم کہ سکتے ہیں کہ نہ ’’پڑھا لکھا پنجاب، نہ پڑھے گا پنجاب اور نہ آگے بڑھے گا پنجاب‘‘ بلکہ ’’ناچے گا پنجاب،جھومے گا پنجاب، گائے گا پنجاب‘‘۔