(پہلا حصہ)
ایک امریکی، ڈچ اور پاکستانی باتیں کررہے تھے۔
امریکی نے کہا: ’’ہم امریکا میں اتنی تیزی سے کام کرتے ہیںکہ محض ایک سال میں امپائر اسٹیٹ بلڈنگ تعمیر کردی تھی‘‘۔
ڈچ بولا: ’’ہم ہالینڈ میں اتنی تیزی سے کام کرتے ہیں کہ ایک ویک اینڈ کے درمیان انڈر پاس تعمیر کرلیا تھا‘‘۔
پاکستانی ایک چانڈیو تھا، بولا: ’’ہم سندھ میں اتنی تیزی سے کام کرتے ہیں کہ جب تک مستری کام شروع کرتا ہے تب تک بجٹ ہی غائب ہوجاتا ہے‘‘۔
بجٹ کہاں جاتا ہے؟ ’’دبئی ان لاکڈ‘‘ اس کا جواب ہے۔ پراپرٹی کی جیسی پہچان ہمارے حکمرانوں کو ہے شاید کسی کو ہوگی۔ اب پاکستان ان کی اس جبلت کی تسکین کے لیے ناکافی ہے۔ پہلے وہ جشن کی راتوں، کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ پر اندھیرا تان دینے کے لیے یورپ میں جائدادیں بناتے تھے پھر انہیں احساس ہوا کہ جو کچھ وہاں ہے وہ سب کچھ تو پاکستان سے ذراسے فاصلے پر دبئی میں بھی موجود ہے، شراب کی فیکٹریاں اور ڈسکو بھی، ساتھ ساتھ نماز روزے کے لیے مساجد کی سہولت بھی، تب سے دبئی ان کی اولین چوائس بن گیا۔
پاکستان کیوں زمین بوس ہوتا جارہا ہے، دبئی ان لاکڈ اس کی نشاندہی ہے جو دنیا کے کئی ممالک کے صحافتی اداروں کی مشترکہ تحقیقات کا حاصل ہے کہ پاکستان اور بھارت سمیت متعدد ممالک کی اعلیٰ شخصیات کی پراپرٹیز دبئی میں ہیں۔ 2020 سے 2022 کے درمیان سامنے آنے والی یہ معلومات امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم غیر سرکاری ادارے سینیٹر فار ایڈوانس ڈیفنس اسٹڈیز (سی فور اے ڈی ایس) نے حاصل کی تھیں۔ بعد ازاں یہ معلومات یورپی ملک ناروے کے صحافتی ادارے ’ای 24‘ اور تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) کے ساتھ شیئر کی گئیں۔ مذکورہ اداروں نے پاکستان، بھارت سمیت دنیا کے لگ بھگ 58 ممالک کے 74 میڈیا اداروں کے صحافیوں کی مدد سے ان معلومات پر تحقیقات کیں۔ یوں دبئی میں پراپرٹیز بنانے والی شخصیات کے نام سامنے لائے گئے۔
پاکستان 75برسوں سے خسارے میں جارہا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کے پاس سرمایہ ہمیشہ ضرورت سے زیادہ رہا جسے کھپانے کے لیے دبئی زبردست ہے۔ دبئی ان لاکڈ، میں سامنے آنے والی معلومات کے مطابق وہ ملک جو سو دو سو تین سو ملین ڈالرکے لیے گھٹنوں کے بل جھک جاتا ہے اور نگر نگر بھیک مانگتا پھرتا ہے، جو ایک ارب ڈالرکے لیے آئی ایم ایف کے سامنے لیٹ لیٹ جاتا ہے۔ 2022 کے آغاز تک اس ملک کے17 ہزار شہریوں کی دبئی میں لگ بھگ 23 ہزار پراپرٹیز ہیں جن کی مجموعی مالیت 10 ارب ڈالرز تھی۔ گزشتہ دو برس میں دبئی میں پراپرٹیز کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اس کی مالیت ساڑھے 12 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے۔
ثبوت اور ناقابل تردید ثبوت کے ساتھ اس مملکت خداداد پاکستان کے بارے میں ایک بات جو یقین سے کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اوّل تا آخر یہاں سب بدعنوان، چور اور ڈاکو ہیں۔ وہ بڑے بڑے جرنیل، جج، سیاست دان، بیوروکریٹس اور پبلک فیگرز جن کے ناموں کے ساتھ آگے پیچھے بڑے بڑے عہدے لکھے ہیں، ایٹمی راز جیسے معاملات ہم نے جن کے حوالے کررکھے ہیں وہ بڑے سفاکانہ اور جارحانہ طریقوں سے سرکاری خزانے کو لوٹ رہے ہیں، چوریاں کررہے ہیں اور آکٹوپس کی طرح اس ملک میں اس طرح پھیلے ہوئے ہیں کہ ہر حکومت کا حصہ ہیں۔
یہ اپنی ذات میں تنہا نہیں ہیں اس ملک کا سسٹم، قانون، آتی جاتی حکومتوں کی بنتی بگڑتی پالیسیاں اور فیصلے سب ان کے محافظ اور مفادات کے نگہبان اور ترجمان ہیں۔ جب بھی اس طرح کی کوئی سوقیانہ اور بے باک تحقیقات سامنے آتی ہیں یہ منجھے ہوئے چور اور ڈاکو بڑی مہارت سے اس الائو پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح کی تحقیقاتی رپورٹس اس دشمن ٹولے کا پول کھول کر ہمیں حقیقت حال سے باخبر کردیتی ہیں کہ اس ملک کے عوام کے مفادات کو کس بے رحمی سے پامال کرکے دولت کشید کی جارہی ہے اور کس طرح آئینی اور قانونی طریقوں سے حرام کی کمائی کو پاک صاف کرکے بیرون ملک اسمگل کرکے دبئی میں جا ئدادیں بنائی جارہی ہیں۔ تاہم چوری اور ڈاکے کی ان وارداتوں کے افشا سے ان کا بگڑتا کچھ نہیں۔ جو منصب انہوں نے ہتھیا لیا ہے وہ ان کے پاس ہی رہتا ہے۔ اس طرح کی تحقیقاتی رپورٹس کو یہ فنکار اپنے فن کی داد اور خراج تحسین کے مترادف سمجھتے ہیں اور پڑھ کر یقینا کھل کھلا کر ہنس پڑتے ہوں گے۔ کیچ می اِف یو کین۔
چوراور ڈاکوئوں کی اس فہرست میں وہ شخص بھی شامل ہے جسے اس نام نہاد جمہوریت میں دوسری مرتبہ صدر پاکستان منتخب کیا گیا ہے۔ جو دوسری مرتبہ ایوان صدر میں بیٹھا ہے، بچوں کے نام پر انہوں نے بھی خوب خوب دبئی میں پناہ گاہیں بنائی ہیں۔ بختاور زرداری دبئی میں مقیم ہیں جب کہ بلاول اور آصفہ کے نام دبئی میں چار جائدادیں درج ہیں۔ تینوں بہن بھائی مشترکہ طور پر دو اپارٹمنٹس کے مالکان ہیں، ایک الصفا میں جب کہ دوسرا جمیرہ میں ہے۔ بختاور زرداری کے پاس 23مرینہ میںچار بیڈرومز پر مشتمل پینٹ ہائوس بھی شامل ہے جو 88منزلہ رہائشی اسکائے اسکریپر ہے جس کا شمار دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں ہوتا ہے۔ یہ پراپرٹی 2014 میں ایک کروڑ 15لاکھ اماراتی درہم یا 31لاکھ 30ہزار 972 ڈالرز میں خریدی گئی تھی۔
حسین نوازشریف نے بھی دبئی میں نواز شریف کے خیر مقدم اور رہا ئش کے لیے ایک چھوٹے بیڈ روم پر مشتمل اپارٹمنٹ خرید رکھا ہے جو 2002-2003 میں جلاوطنی کے دوران ذاتی سرمایہ کاری کے ذریعے 2لاکھ 99ہزار 99 اماراتی درہم ادا کرکے خریدا گیا تھا۔ پاکستان میں چیزیں کتنی ہی ناگوار اور نا پسندیدہ ہو جائیں میاں صاحب لندن، دبئی رائے ونڈ ہر جگہ کھل کر اپنی مرضی کی باتیں کرسکتے ہیں، اچھے کھانے کھا سکتے ہیں اور اپنی صحت کے مسائل پر گفتگو کرسکتے ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیٹے سعد باجوہ نے بھی پاپا کے سیاسی کھیل کی ناکامی کا غم غلط کرنے کے لیے دبئی میں ایک لگژری اپارٹمنٹ خرید رکھا ہے جہاں عمران خان پروجیکٹ جیسی فاش غلطی کرنے کا کوئی چانس ہے اور نہ امکان۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی اپنے مختصر عہد وزارت میں دولت کی ترغیب کی ایک ہی جست سے اس قابل ہو گئے کہ دبئی میں جا ئداد خرید سکیں۔ وہ اور ان کی اہلیہ دبئی میں دو جائدادوں کی مالک ہیں۔ ستمبر 2023 تک وہ دبئی کے برج وسٹا ٹاور میں 3بیڈرومز کے ایک اپارٹمنٹ کے مالک ہیں۔ اس پراپرٹی کی موجودہ مالیت تقریباً20لاکھ ڈالرز ہیں جسے 2013 میں 13لاکھ 30ہزار ڈالر میں خریدا گیا تھا۔
وفاقی وزیر داخلہ اور سابق نگران وزیراعلی پنجاب محسن رضا نقوی پاکستانی جن کے ممنون ہیں کہ انہوں نے حالیہ سیٹ اپ میں وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا اور نہ کس میں جرأت تھی کہ ان کی راہ میں حائل ہوسکتا، ان کی بیگم وردا اشرف کا نام بھی دبئی لیکس میں مہنگی جائدادوں کے مالکان کی فہرست میں شامل ہے۔ 2022 کے موسم بہار تک وردا اشرف عریبین رینچس پالما کمیونٹی میں 5بیڈرومز پر مشتمل بنگلے کی مالک تھیں۔ (جاری ہے)