ایک اور لیکس کی ہوا کا جھونکا چلا اور معززین اور مقربین کے ایک اور طبقے کے اوپر پڑا تقدس اور خدمت کا جامہ ہوا کے جھوکے سے دور جا گرا مگر اس سے کیا ہوتا ہے ’’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘۔ اب تو اس عمل کو بدنامی بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ معاشرے کا غالب حصہ اسے محنت کا صلہ اور کاری گری کا کمال اور فضل ربی سمجھ کو قبول کر چکا ہے۔ وہ زمانہ لد گیا جب کسی اسمگلر اور منی لانڈرر کو اپنی ناجائز دولت کو قبول عامہ اور جوازیت عطا کرنے کے لیے دروازے پر ہذا من فضل ربی کا بورڈ لگوانا پڑتا تھا۔ تب لوگ لفافے کو دیکھ کر ہی خط کا مفہوم بھانپ جاتے تھے۔ اب المیہ یہ ہے کہ ملک اور سماجی اقدار اور سوچ کے انداز ہی بدل دیے گئے ہیں۔ بیتے ہوئے کل کا ناخوب آج بتدریج خوب ہو گیا ہے۔ جب سے ملک کے بااثر طبقات کی دبئی میں موجود دولت کا سراغ ملا ہے تو ہر شخص محو حیرت ہے کہ آخر ملک میں حکمرانی کرنے والے ان لوگوں کو ایسی کون سی اْفتاد پڑی ہے کہ یہ اپنی دولت اور سرمایہ اْٹھا کر بیرون ملک سدھار جاتے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ انہیں ملکی نظام اور قانون کی حکمرانی پر خود بھی یقین نہیں ہوتا جبھی تو یہ اپنا سرمایہ ملک کے اندر نہ تو رکھتے ہیں نہ ہی اسے گردش میں لاتے ہیں۔ یہ کیا ظلم ہوا کہ کمائو اس ملک سے غریبوں کا خون نچوڑو اور لگائو عرب اور یورپ میں۔ یہ حرکت کوئی عام دکاندار کھلاڑی فنکار ٹھیکیدار کرے تو کچھ عجب نہ تھا مگر یہ حرکتیں سب سے زیادہ وہ مافیا کرتا ہے جو اس ملک پر حکمرانی کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اگر جائز اور قانونی طریقے سے اقتدار حاصل نہ ہو تو ’’فارم 47‘‘ کے اقتدار کو بھی قبول کرنے سے کتراتے نہیں۔
اقتدار عوام کے راستے ملے تو ٹھیک وگرنہ خیرات لینے میں انہیں کوئی تامل نہیں ہوتا۔ جم کر نوکری کرتے ہیں نوکری کے اختتام پر گھروں اور زمینوں کی صورت میں انعام واکرام کی برسات میں نہاتے ہیں مگر پھر بھی دوسری نوکری کے لیے ہمہ وقت مستعد اور تیار ہوتے ہیں جیسے کہ کا کول اکیڈمی میں داخلے کا پہلا دن ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ مراعات کی اس گنگا جمنا کے حامل لوگ بھی اپنا سرمایہ باہر منتقل کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ یہ سرمایہ داروں کی جدی پشتی کلاس نہیں بلکہ اسی ملک ومعاشرے میں ہماری نظروں کے سامنے چند دہائیوں سے جاری ’’نک ویلوٹ‘‘ کی طرح چھوٹی چھوٹی چوریاں کرکے سرمایہ دار بنے بیٹھے ہیں۔ ہم نے اپنے بچپن میں دہلی سے شائع ہونے والی کتاب نک ویلوٹ کی چوریاں پڑھی تھی جو غالباً کسی انگریزی ناول کا ترجمہ تھی جس کا مرکزی کردار نک ویلوٹ ہیرے جواہرات تاریخی نوادارات جیسی چیزوں کی طرف آنکھ اْٹھا کر نہیں دیکھتا تھا مگر وہ کاٹھ کا گھوڑا، کوا اور بلی جیسی چیزیں چرانے کا عادی تھا یہ چیزیں چرانے کے لیے اس کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی تھیں۔ اس ناول میں آخر تک کہیں بھی نک ویلوٹ اپنی ان ادائوں کے باوجود کوئی بڑا سرمایہ دار نہ بن سکا۔ پاکستان کی نو دولتی سرمایہ دار کلاس کی اکثریت اس حد تک تو عہد ِ جدید اور پاکستان کے نک ویلوٹ ہیں جو حقیر اور بے وقعت چیزوں کو بھی نہیں چھوڑتے کیونکہ یہ سب کچھ ضروتاً نہیں بلکہ عادتاً کرتے ہیں اور پھر ایک روز ان کا سرمایہ کسی لیکس کے پردے سے کبھی لندن تو کبھی دبئی، سنگا پور، واشنگٹن اور فرانس سے بولتا ہے۔ ان کو دیکھ کر تو نک ویلوٹ کو ’’نیک ویلوٹ‘‘ کہنے کو جی چاہتا ہے۔ ان کی اس جدید ساختہ امپائر کی قیمت ملک نے قانون کی حکمرانی اور بدعنوانی کے رسم ورواج اور اپنا پیدائشی حق بننے کی صورت میں ادا کی ہے۔ اس سے بڑی زیادتی ملک وقوم کے ساتھ کیا ہو سکتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ داروں کی اس نو دولتی کلاس کا ملک کی ترقی اور بے روزگاری کے خاتمے کی کوئی کردار نہیں انہوں نے ملک میں حکومت برائے حکومت کی ہے یا پھر سرمایہ جمع کیا ہے۔ گڈ گورننس کا ان کی راہ سے بھی کبھی گزر نہیں ہوا۔ اس سے تو لاکھ درجے ایوب خان کے دور کے وہ بائیس خاندان تھے جن کی سرمایہ کاری ملک کے اندر ہوتی تھی اور ان کے سرمائے کا کچھ نہ کچھ فائدہ ملک کے عام آدمی کو مل رہا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب کراچی کو اس بنا پر ’’بھوکے ننگوں کی ماں‘‘ کہنے کا رواج عام تھا کہ وہاں صنعت کا پہیہ دوڑ رہا تھا اور اس کی فیوض وبرکات سے ملک کے دور دراز کے لوگوں کا چولھا جلتا تھا۔ وہ سستے میں اپنا پیٹ بھی بھرتے تھے اور رقم پس انداز کر کے دور اپنے اہل خانہ کی ضرورتیں بھی پوری کرتے تھے۔ اس وقت ایوب خان نے بائیس خاندانوں کو سرمایہ کاری پر لگا دیا تھا تو ان سے کچھ لین دین بھی ہوا تھا۔ وہ واپس ملک کو کچھ لوٹاتے بھی تھے۔ اب اسٹیبلشمنٹ اور سرمایہ کاروں کے درمیان کوئی معاہدہ ہی نہیں۔ بس وہ سیاسی چہرے ہیں اور بوقت ضرورت اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی بیساکھی فراہم کرتے ہیں اور اس ایک نظریۂ ضرورت کے تحت ان کے سات خون معاف ہیں۔ کسی دور میں اگر کسی طاقتور کے ذہن میں کرپشن کو کرپشن کہنے کا خیال آتا ہے تو ان پر تھوڑی سختی ہوتی ہے اور پھر وقت بدلتے ہی یہ سب این آر او ون ٹو تھری نجانے کیا کیا حاصل کرکے محفل میں صاف وشفاف ہو کر بیٹھ
جاتے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
آج کا المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ملک کی اس طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے ہورہا ہے جس کی اجازت کے بغیر ملک میں چڑیا پر نہیں مار سکتی۔ آج کے ان نو دولتیوں کی حرکتیں دیکھ کر ماضی کے بائیس خاندان فرشتے لگتے ہیں اور کفن چور کی حرکتوں کو دیکھ کر کفن چور کے ابا کو محروم ومغفور اور عزت وتکریم کے ساتھ ’’کفن چور کے والد محترم‘‘ کہنے کو جی کرتا ہے۔ اب یہ کیا ہوا کہ ایک سال قوم کو ایس ایم ایس کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے کہ Say no to corruption کرپشن کے بارے میں زیرو ٹالرنس کی باتیں عام ہوتی ہیں۔ شیخ رشید جیسے ترجمان کہتے ہیں جھاڑوں پھرنے والا ہے۔ بے رحم احتساب ہونے والا ہے۔ کوئی بھی بچے گا نہیں۔ تین سال کے بعد کرپشن کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ ایک نیا ترجمان کہتا ہے کہ کون کرپٹ ہے کون نہیں یہ ثبوت کی بنیاد پر تو نہیں ہوگا بلکہ اس کا فیصلہ کچھ لوگ کریں گے۔ اب ملک کے عوام روبوٹس تو نہیں جو صاحب ان کے اندر جو ڈیجٹس فیڈ کریں وہ اس کی مالا جپنے لگیں گے۔ خدا کی مخلوق اپنے ذہن رکھتی ہے اور ان ذہنوں کا استعمال کرنے کا فن جانتی ہے اور سمجھتی ہے کہ کون سا نعرہ کس نظریۂ ضرورت کی پیداوار ہے اور کب تک چلنا ہے؟ آج بہت سے بیانیے صرف ان تضادات کی وجہ سے غیر موثر ہو کر رہ گئے ہیں اور عوام مڑ کر ان کی طرف دیکھتے ہی نہیں۔ ہر قلم کار کی طرح ہمیں آج بھی ایس ایم ایس آتے ہیں مگر ’’سے نو ٹو کرپشن‘‘ والے ایس ایم ایس کے انجام کے بعد اب پڑھے بغیر واٹس ایپ میسجز ڈلیٹ کردیے جاتے ہیں۔ دبئی لیکس کے بعد بھی کچھ نہیں ہونا ہاں دبئی لیکس والوں کی عام آدمی پر دھاک بیٹھ جائے گی کہ یہ تپڑ والے لوگ تھے تو ملک سے پیسہ کما کر دبئی لے گئے۔ عام آدمی کا تو دبئی سے پانچ ہزار کا منی آرڈر آجائے تو بینک والے بال کی کھال اْتارتے ہیں۔