دعوتِ دین کے تقاضے اور آداب (حصہ سوم)

536

خطابت کی اثر آفرینی کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کی علمی اور ذہنی سطح کے مطابق بات کی جائے، چنانچہ ہشام بن عروہ فرماتے ہیں: ’’آپ اگر کسی سے اس کے عقل وفہم کے معیار سے بلند ہو کر گفتگو کریں گے تو وہ گمراہ ہو جائے گا‘‘۔ (جامع بیان العلم)

سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں روزے کی حالت میں استنجاء کے حوالے سے ایک فقہی مسئلہ بیان کیا گیا ہے جو اپنی جگہ درست ہے، لیکن ایسے مسائل کلاس روم میں پڑھانے چاہییں، انہیں میڈیا پر لائیو نشر کرنا یا سوشل میڈیا پر وائرل کرنا حکمتِ دین کے منافی ہے، کیونکہ میڈیا کو دیکھنے والے مختلف سطح کے لوگ ہوتے ہیں، بعض اصلاح پسند ہوتے ہیں اور بعض شرپسند ہوتے ہیں، شرپسند لوگ اُسے لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، لہٰذا دین کی عظیم تر حکمت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اِسی طرح بہت سے واعظین اور خطباء جن کا کام صرف کرامتیں اور عجائب وغرائب بیان کرنا ہے، اُن کے خطابات سے مختلف حصے کاٹ کر چھوٹے چھوٹے کلپ بنائے جاتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پروائرل کیے جاتے ہیں، اس کی آڑ میں مسلّمہ بزرگانِ دین کا بھی مذاق اُڑایا جاتا ہے، پس اس بارے میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔

خطباء کو چاہیے کہ وہ اپنے دروس اور جمعہ کے خطابات میں دوسرے مسالک کی شخصیات، تنظیموں اور اداروں پر طعن وتشنیع کے بجائے اپنے موقف کو مثبت اور مدلل انداز میں بیان کریں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ غیرجانبدار اور خالی الذہن لوگ آپ کی بات پر توجہ دیں گے اور ممکن ہے کہ وہ اسے قبول کریں۔ اس کے برعکس گالی گلوچ اور طعن وتشنیع سے دوسروں کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں، وہ ضد پر اترآتے ہیں اور مغلوب الغضب ہوکر قبولِ حق سے انکار کردیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: ’’اور (اے رسولِ مکرم!) میرے بندوں سے کہہ دیجیے: وہ اچھی بات کیا کریں، کیونکہ شیطان اُن کے درمیان فساد ڈالتا ہے، بے شک شیطان انسان کاکھلا دشمن ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: 53)

ایسے جملے اور کلمات استعمال نہ کیے جائیں جو لوگوں کو اُس کے خلاف کردیں، کیونکہ لوگ اپنی برادری، کاروباری شرکاء، اداروں اور جماعتوں کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتے۔ نیز دعوتِ دین کا مقصد دوسروں کو اپنے قریب بلانا ہے، محض اُن کے عیوب بیان کرنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب متکلِّم اور مخاطَب میں کوئی اشتراک ہو، چنانچہ قرآنِ کریم میں انبیائے کرام کی دعوت کا عنوان اکثر ’’یٰقَوْمِ‘‘ سے شروع ہوتا ہے، اس میں برادرانہ رشتے کے جذبات پیدا کر کے اصلاحی کلام کیا جاتا ہے کہ ہم تم تو ایک ہی برادری کے لوگ ہیں، کوئی منافرت نہیں ہونی چاہیے، یہ کہہ کر ان کی اصلاح کا کام شروع فرماتے ہیں۔ لہٰذا کسی کو نامزد کیے بغیر جرائم کی نشاندہی اور ان کی اصلاح کرنی چاہیے اور یہی نبی کریمؐ کا اُسلوب تھا، آپ دعوت و اصلاح کے کام میں اس کا بہت اہتمام فرماتے تھے کہ مخاطب کی سبکی یا رسوائی نہ ہو، اسی لیے جب کسی شخص کو دیکھتے کہ کسی غلط اور برے کام میں مبتلا ہے تو اس کو براہ راست خطاب کرنے کے بجائے مجمع عام کو مخاطب کر کے فرماتے تھے: ’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے اس طرح کے کام کرتے ہیں‘‘۔ جس کو سنانا مقصود ہوتا وہ بھی سن لیتا اور اپنی اصلاح کرلیتا، یہ ایسا حکیمانہ طریق کار ہے جس کے باعث مخاطب کو شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ انبیائے کرام کی عام عادت یہی تھی کہ مخاطَب کو شرمندگی سے بچاتے تھے، اسی لیے بعض اوقات جو کام مخاطب سے سرزد ہوا ہے، اس کو اپنی طرف منسوب کر کے اصلاح کی کوشش فرماتے، قرآنِ کریم میں ہے: ’’میں اپنے خالق کی عبادت کیوں نہ کروں، حالانکہ تم سب اُسی کی طرف لوٹائے جائو گے‘‘، (یٰس: 22) ظاہر ہے کہ یہ دین کے یہ داعی تو ہر وقت مصروفِ عبادت رہتے تھے، دراصل اُن مخاطَبین کو سنانا مقصود تھا جو خالق کی بندگی سے دور ہیں، مگر اپنی ذات کو سامنے رکھ کر بات کی۔

ہمارے ہاں عموماً مساجد اور دینی محافل میں لاوڈ اسپیکر کا غیرمحتاط استعمال ہوتا ہے، ماہِ رمضان میں سحری کا وقت ختم ہونے سے دو گھنٹے پہلے چاروں سَمت مساجدسے اعلانات شروع ہوجاتے ہیں، نہ صرف اعلان بلکہ مسلسل اذانِ فجر تک تلاوتِ قرآن اور نعت خوانی کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ایک بے ہنگم شور برپا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے خصوصًا مساجد کے قرب وجوار میں لوگوں کو اپنے گھروں میں نوافل اور تلاوتِ قرآنِ کریم میں یکسوئی نہیں رہتی، اُن کی عبادات میں خلل واقع ہوتا ہے، ننھے بچوں، بوڑھوں اور بیماروں کو اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شریعت کی رُو سے لاؤڈ اسپیکر کا اس طرح کا استعمال نامناسب ہے۔ اِسی طرح بہت سی مسجدوں میں جمعہ کے دن اور دیگر خاص مواقع پر نعت خوانی، ذکر اذکار، خطابات اور صلوٰۃ وسلام کے لیے لائوڈ اسپیکر استعمال کیا جاتا ہے اور دور دور تک گھروں کے اندر آواز کو پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ طریقہ دعوتِ دین کے اُصولوں کے خلاف ہے اور شرعاً بھی اس کا کوئی جواز نہیں ہے، البتہ لائوڈ اسپیکر کے ذریعے اذان کی آواز دور تک پہنچانا جائز ہے۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ مسجد میں تھوڑے لوگ وعظ یا درس سننے کے لیے بیٹھے ہیں، جن کو آواز پہنچانے کے لیے لائوڈ اسپیکر کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے یا صرف اندرونی اسپیکر سے بآسانی کام چل سکتا ہے، لیکن بیرونی لائوڈ اسپیکر پوری قوت سے کھلا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ آواز محلے کے گھر گھر میں اس طرح پہنچتی ہے کہ کوئی شخص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ سیدنا عمر فاروقؐ کے زمانہ خلافت میں ایک واعظ مسجد نبوی میں سیدہ عائشہ کے مکان کے بالکل سامنے بہت بلند آواز سے وعظ کرتا تھا، جس کی وجہ سے سیدہ عائشہ کی یکسوئی میں فرق آتا تھا، سیدہ عائشہ نے سیدنا عمر سے اس کی شکایت کی، سیدنا عمر نے اُس واعظ کو اس طرح کرنے سے منع کیا، لیکن وہ باز نہ آیا اور کچھ عرصے کے بعد اُس نے وہی سلسلہ پھر شروع کر دیا، جب سیدنا عمرؐ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ تشریف لائے اور خود جا کر اُسے پکڑا اور اس پر تعزیری سزا جاری کی‘‘۔ (اخبار المدینہ)

وقت کی پابندی: نمازِ جمعہ وعیدین کے لیے پہلے سے وقت متعین ہوتا ہے، ہم جب نظریاتی طور پر نماز کے فضائل بیان کرتے ہیں تو بتاتے ہیں: ’’نماز پابندیِ وقت سکھاتی ہے، باجماعت نماز اطاعتِ امیر سکھاتی ہے‘‘، لیکن کئی جگہ جمعہ وعیدین کی نماز کے قیام میں مقررہ وقت سے تاخیر کردی جاتی ہے، یہ درست نہیں ہے، ہمیں حتی الامکان جمعہ وعیدین کی نمازیں مقررہ وقت پر کھڑی کرنی چاہییں، سوائے اس کے کہ کوئی غیرمعمولی صورتِ حال پیدا ہوجائے۔

ہمارے ہاں کراچی میں رخصتی یا ولیمہ کی دعوت ہو تو نعتوں کی ریکارڈنگ لگادی جاتی ہے یا کسی نعت خوان کو بٹھا دیا جاتا ہے، ہمارے نزدیک یہ شعار بھی حکمت پر مبنی نہیں ہے، کیونکہ یہ سَماجی اجتماعات ہوتے ہیں، ان مواقع پر لوگوں کو باہم میل ملاقات کا موقع مل جاتا ہے، پرسشِ احوال ہوتی ہے، تبادلۂ خیالات کیا جاتا ہے، یہ لوگ قصداً نعت خوانی سننے کے لیے نہیں آئے ہوتے، بچے کھیل کود میں مشغول ہوتے ہیں۔ نعت خوانی کے لیے حضوریِ قلب کی کیفیت کا جو ماحول چاہیے، وہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح ان تقریبات کا عمومی ماحول تقدیسی مزاج کا حامل نہیں ہوتا۔ تلاوت اور نعت خوانی بھی ہورہی ہوتی ہے اور حاضرین کی ذہنی اور فکری یکسوئی بھی نہیں ہوتی، لہٰذا تلاوت اور نعت کی حرمت قائم نہیں رہتی۔ البتہ اگر ان مقاصد کے لیے مستقل مجلس منعقد کی جائے تو پھر لوگ اسی کے لیے ذہن بناکر آتے ہیں، حضوریِ قلب اور توجہ کے ساتھ سنتے ہیں اور مجموعی ماحول بھی حرمت وتقدیس کا ہوتا ہے اور یہ باعثِ اجر ہے۔ اس پر بعض لوگ جواز کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں: ’’میوزک اور گانے کی ریکارڈنگ پر تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا، صرف قرأت ونعت پر اعتراض بے سبب ہے‘‘، جواباً گزارش ہے: (۱) گانے بجانے کے لیے شرعاً نہ حضوریِ قلب درکار ہے، نہ یہ محفل تقدیس کی حامل ہوتی ہے، بلکہ اس کا نہ ہونا اس کے ہونے سے ہزار درجے بہتر ہے، (۲) کسی غلط بات کو دوسری بات کے لیے جواز کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ (جاری ہے)