یہ بات کسی دغدغے کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ وطن ِ عزیز کا حکمران طبقہ قوم کا نمائندہ نہیں ہوتا۔ ملک و قوم پر مسلط ہونے والی یہ مخلوق دشمن قوتوں کی نمائندگی کرتی ہے المیہ یہ بھی ہے کہ فیصلہ ساز قوتیں ان کی خوشنودی کے حصول کے لیے فرشِ راہ بنی رہتی ہیں۔ عام ملازم ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنی کفالت کے قابل بھی نہیں رہتا مگر خواص اپنے پورے خاندان کے کفیل بن جاتے ہیں کیونکہ ان کی پنشن تنخواہ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ غالباً اْن کی پنشن 85 فی صد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اْنہیں ایسی مراعات سے نوازا جاتا ہے جس کے بارے میں عام ملازم سوچ بھی نہیں سکتا۔ وزیر ِ اعظم میاں شہباز شریف انتہائی افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ ملک اتنا مقروض ہو چکاہے جو پھانسی کا پھندا بن چکا ہے۔ حالانکہ وطن ِ عزیز کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ پھندا عالمی مالیاتی اداروں نے نہیں پاکستان کے حکمرانوں نے عوام کے گلے میں ڈالا ہے جسے آئے دن کستے رہتے ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے مگر یہاں تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں۔ ڈپٹی کمشنر عموماً بی ا ے ہوتا ہے اْسے 17 واں گریڈ دیا جاتا ہے، عالی شان رہائش سے نوازا جاتا ہے، درجنوں گاڑیاں اور خدمت گار دیے جاتے ہیں مگر 22ویں گریڈ کے ماہر ِ تعلیم کو سائیکل بھی نہیں دی جاتی یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں اہل ِ علم کی کوئی عزت نہیں کرتا اور ڈپٹی کمشنر جیسے افسر ضلع کے بادشاہ سلامت بنے بیٹھے ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر ہر حکومت نے قوم کو مقروض بنایا ہے کہ حکمرانوں کا سیاسی منشور اور نصب العین یہی ہے۔ ایک ضلع میں اسسٹنٹ کمشنر، ایڈیشنل کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور کمشنر ہوتا ہے جو ضلع کے اصل حکمران ہوتے ہیں۔ اْنہیں جو رہائش گاہیں دی جاتی ہیں ان میں درجنوں خاندان بسائے جا سکتے ہیں۔ انہیں بے گھری کی لعنت سے نجات دی جاسکتی ہے اگر ان افسران کی مراعات اور سہولتیں ختم کر دی جائیں تو پاکستان سے افلاس و غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے مگر کوئی بھی حکمران ا س پر توجہ نہیں دیتا کیونکہ ان کی اصل طاقت تو یہی اسسٹنٹ کمشنر، ایڈیشنل کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور کمشنر ہوتے ہیں۔
کبھی کبھی یہ گمان غالب ہونے لگتا ہے کہ سیاست دان نماز و روزہ کا پابند ہونے کے بعد بھی درآمد ہدایات کا پابند ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں، نماز و روزے کے بھی پابند ہیں مگر جب یہ تعلیمات اْن کی سیاسی زندگی پر اثر انداز ہونے لگتی ہیں تو اْنہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ شریعت عدالت نے سود پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا تو میاں نواز شریف اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں چلے گئے اور وہاں سے حکمِ امتناع کی آڑ میں اس حکم کو ردّی دان میں پھینک دیا۔ گویا سیاست دانوں کے دو چہرے ہوتے ہیں ایک عوامی اور دوسرا سیاسی چہرہ۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کشمیر کے دورے پر بہت سے دعوے کیے ہیں اْن کا کہنا ہے کہ وہ ملکی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں مگر عملاً کوئی اقدام کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ شاید درآمد ہدایات کے منتظر ہیں۔ وہ چاہیں تو عالمی مالیاتی اداروں سے جان چھڑا کر قوم کو خوشحالی کی منزل تک لے جاسکتے ہیں مگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں اور قوم ان کی سیاست سمجھنے سے قاصر ہے۔ قوم یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ قوم پر قرضوں کا بوجھ تو اْنہوں نے لادا ہے۔ قوم یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ سول اسٹیبلشمنٹ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو سہولتیں اور مراعات کیوں دے رہے ہیں؟ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ حالانکہ ہر حکومت کو اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ جب تک افسرانِ بالا کی بالادستی سے قوم کو نجات نہیں دلائی جا تی خوشحالی کا خواب شرمندہ ِ تعبیر ہی رہے گا۔
ان دیاروں میں کون بستا ہے؟
عدل مہنگا ہے ظلم سستا ہے