شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر نہیں مارتے

520

تاریخ کو ہم کہاں پھینک دے، تاریخ تو تاریخ ہے کسی کو اچھی لگی یا بری، پیپلزپارٹی کی بھی ایک تاریخ ہے اور جسارت کی بھی ایک اپنی تاریخ ہے، یہ دونوں نظریات کے اعتبار سے ایک دوسرے کی زد ہیں، تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں، بھٹو دور میں بھی جسارت بند ہوا، مگر جسارت نے کبھی صحافتی اقدار کا دامن نہیں چھوڑا، ضیاء دور میں جسارت تکلیف میں رہا کہ اس کی اہمیت کم کرنے اور تکلیف بڑھانے کے لیے اس کے پر کاٹے گئے، اس کی ٹیم توڑی گئی، کچھ لوگ لالچ میں آگئے اور کچھ اپنے پائوں پر کھڑے رہے، جو لوگ لالچ میں آگئے اور ضیاء کے سیاسی اسلام پر فدا ہوگئے ان کے اپنے اب انہیں نہیں پہچان رہے، مگر جسارت اپنے پائوں پر کھڑا ہے۔ اس کے بعد نواز شریف کا دور آیا، جسارت پہلے سے زیادہ مشکل میں آگیا، پھر محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ اقتدار میں آئیں، جتنا بد تر سلوک بھٹو صاحب کے دور میں جسارت کے ساتھ ہوا، بعد میں ان کی صاحب زادی ان سے بہت مختلف ثابت ہوئیں۔ 2007 میں جب وہ واپس آئیں تو ایک بدلی ہوئی بے نظیر بھٹو تھیں، میں اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت وہ اقتدار میں آجاتیں تو جسارت کے لیے بھٹو دور میں ہونے والی زیادتیوں کا ضرور ازالہ کرتیں۔

بے نظیر بھٹو کے بعد ہمیں جس پیپلزپارٹی سے واسطہ پڑا ہے اور اس کی سندھ حکومت جیسی رہی ہے، اس سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں، ہاں البتہ بلاول زرداری اور محترمہ آصفہ زرداری میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں، ان دونوں کے سینے میں دل ہے اور دل میں لوگوں کے لیے درد، یہ دونوں اپنی شہید ماں کی طرح سوچتے اور بات کرتے ہیں، ان دونوں کے سینے میں دکھ بھی ہیں اور درد بھی، یہ دکھ اور درد کس نے دیے؟ یہ بھی دونوں خوب جانتے ہیں، مگر ان کے دل میں یہ سب سے بڑا درد ہے کہ سندھ میں ان کی حکومت کے دوران بھی سرکار کے محکموں میں کرپشن ختم کیوں نہیں ہوتی، کیوں کرپٹ مافیا ان کی حکومت کو بدنام کرنے کا سامان پیدا کرتا ہے۔ یہی درد انہیں کھا رہا ہے، ہاں میں یہ بھی جانتا ہوں، جس روز ان دونوں کے پاس مکمل اختیار اور اقتدار آگیا، تو اس روز پیپلزپارٹی بھی بدل جائے گی اور سندھ میں پیپلزپارٹی کے نام پر جو کرپشن ہوتی ہے اس کی بھی جڑ اکھڑ جائے گی۔

جسارت کی تاریخ اسلام، نظریۂ پاکستان اور معاشرے میں سماجی انصاف کے پھیلائو کی تحریک اور تاریخ ہے۔ یہ اپنے لیے کسی خاص اور میرٹ سے ہٹ کر طرف داری نہیں چاہتا، تاہم بہتر یہی ہے کہ دوسرا فریق بھی ’’اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرے‘‘ ہم بھی اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیریں گے، دونوں کو یہ کام کرنا ہوگا، صرف جسارت سے ہی اچھے بچے بن کر رہنے کا تقاضا کرتے رہنا، آپ کے اپنے رویے میں کہیں کسی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے۔ جسارت سے متعلق شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر مارنے سے قبل ذرا وزارت اطلاعات کے نہایت سینئر افسروں ہی سے پوچھ لیا جاتا، محترم سلیم گل شیخ صاحب، اللہ انہیں ہمیشہ خوش رکھے، محترم قبلہ انور محمود سید صاحب بھی پی آئی او رہے ہیں، سیکرٹری انفارمیشن رہے ہیں، نہایت ہی دبنگ افسر تھے، جب جناب انور محمود صاحب کو علم ہوا کہ جسارت کو سندھ میڈیا لسٹ سے ہٹا دیا گیا ہے تو ان کا ردعمل یہ تھا ’’میں اس پر افسوس ہی کرسکتا ہوں اس اخبار سے آپ نظریاتی اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس کی صحافتی اقدار سے نہیں، اس اخبار سے آپ نظریاتی اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس کی صحافتی اقدار سے نہیں‘‘ صحافتی اقدار کیا ہیں، سچ لکھنا، اور مسلسل اشاعت، کسی کی پگڑی نہ اچھالنا، جسارت نے کبھی کسی سرکاری افسر یا سرکاری ادارے کے بارے اس لیے کچھ نہیں لکھا یہ جسارت کو اشتہار نہیں مل رہا، ہاں البتہ جو دیکھا، وہی لکھا، محترمہ بے نظیر بھٹو کے سابق معتمد ساتھی اور اب پاکستان پیپلزپارٹی ورکرز کے فنانس سیکرٹری ابن رضوی کا رد عمل کچھ یہ تھا ’’جسارت نے ہمیں، جب پیپلزپارٹی اقتدار میں تھی، تب بھی بہت سخت موقف رکھا مگر اس کے موقف میں کبھی ایسا نہیں ہوا س نے کسی کی پگڑی اچھالی ہو، یہ اخبار مجھے ذاتی طور پر نظریاتی مخالف ہونے کے باوجود ایک مثبت اخبار محسوس ہوتا ہے، اس کے ساتھ ایسا سلوک افسوس ناک ہے‘‘۔ بلوچستان کے راہنماء اور ادبی اکیڈمی براہوی اکیڈمی کے چیئرمین، پاکستان پریس کونسل کے سابق چیئرمین اور عدالت عظمیٰ کے سینئر وکیل ڈاکٹر میر صلاح الدین مینگل نے رد عمل دیا کہ آج کل صحافت مشکل میں اور ہر وہ میڈیا جو نظریاتی ہے اس کے لیے مشکل حالات ہیں اور انہیں مدد دینے کے بجائے ان کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے یہ عمل نہایت افسوس ناک ہیں یہ طرز عمل تبدیل ہونا چاہیے، اسپورٹس تجزیہ کار اور سابق فاسٹ بالر سرفراز نواز نے کہا کہ جسارت کو تو میں بہت پسند کرتا ہوں اس نے ہمیشہ سپورٹ کو بت اہمیت دی ہے اس جیسے ریگولر اخبار کے ساتھ ایسا سلوک افسوس ناک ہے، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (ڈیموکریٹس) کے مرکزی سیکرٹری محمد توحید راجا نے کہا میرے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ جسارت، جو کہ چون سال سے مسلسل شائع ہو رہا ہے اور مشکل حالات میں بھی چل رہا ہے اس کے بارے میں سندھ کے محکمہ اطلاعات نے یہ فیصلہ کیسے کرلیا ہے، راجا صاحب کو کون بتائے کہ کرپٹ سرکاری افسروں کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور دل ہوتا ہے اس میں لالچ کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔