قبر کے لیے جگہ، ذمے دار کون

652

محترم محمود شام صاحب نے 9 مئی 2024 کو اپنے کالم ’’قبر کے لیے جگہ کس کی ذمے داری‘‘ کے عنوان سے ایک فکر انگیز کالم تحریر کیا۔ اپنے اس کالم کو تحریر کرنے سے پہلے اس عنوان پر دوستوں سے رائے طلب کی جس میں تجویز دینے والوں میں ابن آدم بھی شامل تھا۔ میں نے وادی ابن آدم کے نام سے نیا قبرستان تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا۔ آج سے 18 سال پہلے کی بات ہے۔ میں نے وادی ابن آدم کے نام سے قبرستان کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔ ملک کے نامور گلوکار علی حیدر اس نیک کام میں میرے ساتھ تھے، ہم نے علی حیدر ابن آدم ویلفیئر ٹرسٹ رجسٹر کرائی۔ علی حیدر چیئرمین اور میں صدر بنا۔ ہمارا مقصد وادی ابن آدم کے نام سے قبرستان اور ابن آدم اولڈ ہائوس کی تعمیر تھی، کراچی میں اُس وقت بھتا اپنے عروج پر تھا، مشہور کاروباری حضرات اور سرمایہ داروں کو بھتے کی پرچیاں موصول ہوتیں، بھائی علی حیدر بھی کاروبار کرتے تھے لہٰذا اُن کو بھتے کی پرچی موصول ہوئی، کراچی کے حالات دیکھ کر آپ ملک چھوڑ کر چلے گئے اور ٹرسٹ آج بھی الماری میں بند پڑا ہے۔

وادی ابن آدم قبرستان کا خیال مجھے اس وقت آیا جب اچھرہ لاہور میں مولانا مودودیؒ کی رہائش گاہ گیا جب گیٹ سے اندر داخل ہوا تو سیدھے ہاتھ پر مجھے دو قبریں نظر آئیں، ساتھ ایک پریس لگا ہوا تھا سامنے ان کے صاحبزادے فاروق حیدر مودودی کے نام کی پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ اتفاق سے باہر میری ملاقات فاروق حیدر مودودی صاحب سے ہوئی، میں نے اپنے بارے میں اُن کو بتایا تو خوش ہوئے اور مجھے اندر اپنے گھر لے آئے ایک بہت بڑا کمرہ آپ اس کو لائبریری بھی کہہ سکتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ صاحب کی بڑی فوٹو لگی تھی اور مولانا مودودیؒ کی لکھی ہوئی کتابوں کے علاوہ ہر علوم کی کتابیں وہاں موجود تھیں۔ فاروق حیدر صاحب چائے، بسکٹ، کیک لے کر آئے تو دوران چائے کافی چیزوں پر تبادلہ خیال کے بعد جب میں باہر آیا تو دریافت کیا کہ یہ دو کچی قبریں کس کی ہیں تو فاروق حیدر صاحب نے جواب دیا تھا یہ ابا حضور یعنی مولانا مودودیؒ اور ان کی زوجہ کی تھیں، میں نے نہایت احترام کے ساتھ فاتحہ خوانی کی پھر وہاں سے نکل پڑا۔ میں نے سوچا کہ اتنے بڑے انسان کی قبر جب کچی ہوسکتی ہے تو ہم لوگ یہ عمل کیوں نہیں کرسکتے، مگر ہمارے شان و شوکت کا کیا ہوگا ہم کو تو اماں اور ابا کی قبر سنگ مرمر کی بنوانی ہے اور ماربل کا ایک بڑا ٹکڑا کتبہ کے طور پر لگانا ہے۔ جس پر مرحوم کے حوالے سے پوری تفصیل لکھی ہوئی ہے۔ آپ PECHS قبرستان میں جائیں تو مین روڈ پر قبر ہے جس پر لکھا کسٹم افسر اس طرح سے آپ کو بے شمار قبریں ملیں گی جس پر مرحوم کا عہدہ لکھا ہوا نظر آئے گا۔

کراچی میں قبرستانوں کی کمی کی بڑی وجہ بڑی بڑی پکی قبریں ہیں اس کے علاوہ بے شمار پیروں کے بڑے بڑے مزارات بنے ہوئے ہیں آپ محمد شاہ قبرستان چلے جائے تو کئی ایکٹر پر تو آپ مزارات نظرآئیں گے۔ ڈیفنس کے قبرستان سب سے مہنگے ہیں کم ریٹ پر نیوکراچی قبرستان میں جگہ ملے گی کم از کم 25 ہزار کی محمد شاہ میں 30 سے 40 ہزار سخی حسن 50 ہزار سے 80 ہزار اور اگر فرمائشی پروگرام ہے کے گیٹ کے قریب تو بات ایک لاکھ تک چلی جاتی ہے جب کہ دوسری طرف وادی حسین جو شیعہ برادری کا قبرستان ہے وہاں قیمت بھی معقول اور نظام ہے۔ ہمارے قبرستان میں تو میت کو اس کی قبر تک پہنچانے کے لیے بے شمار قبروں کے اوپر سے گزارنا پڑتا ہے یہ بے ادبی اور بے حرمتی روز کا معمول ہے گورکن بادشاہ بنا ہوا ہے۔ ٹھیکے دار فرعون بنے ہوئے ہیں۔ پکی قبروں کو توڑ کر پھینک دیتے ہیں۔ وادی ابن آدم کے نام سے جو میں قبرستان بنانے کا خواب دیکھ رہا ہوں اسی قبرستان میں کوئی پکی، ماربل یاسنگ مرمر کی قبر نہیں ہوگی نہ ہی اندر مزار تعمیر کرنے کی اجازت ہو گی۔ ایک سال بعد سعودی عرب کے طریقے پر کام کرتے ہوئے دوبارہ سے قبریں تعمیر کریں گے مگرموجودہ حکمرانوں کے دور میں ایسا ممکن نہیں ہاں اگر ملک میں حقیقی اسلامی ریاست قائم ہو جائے جو صرف جماعت اسلامی لاسکتی ہے اگر قوم ان کا ساتھ دے اور ایک موقع لازمی دے۔

شام صاحب نے بتایا کہ پنجاب میں شہر خاموشاں اتھارٹی بنائی گئی تھی لواحقین و میت کو قبرستان تک پہنچانے کے لیے بسیں بھی خریدی تھیں۔ سلمان صوفی اتھارٹی کے چیئرمین یا سربراہ تھے۔ تمام مذاہب کے مردوں کو کفن، دفن، غسل، تدفین اور دیگر رسوم پوری کرنے کے انتظامات بھی کیے گئے منصوبے میںجنازہ گاہ، شمشان گھاٹ بنائے گئے جو صرف کاغذات تک محدود رہنے کے بعد خود دفن ہوگئے۔ موت اٹل ہے ہر مسلمان کو قبر کے لیے جگہ چاہیے۔ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہمارے حکمران تو جیتے جاگتے شہروں کو شہر خاموشاں بنانے کے آرزو مند رہتے ہیں جس طرح ہر شعبے میں مافیا موجود ہے وہاں گورکن مافیا کراچی کے قبرستانوں پر راج کررہی ہے۔ قبروں کی حفاظت پر باقاعدہ تنخواہوں پر گورکن کے خاندان کے لوگ مامور ہیں وہ قبروں پر پانی ڈالتے ہیں اور اس قبر کی حفاظت کرتے ہیں، ہر قبر کے پیچھے ان کا نشان لگا ہوا ہوتا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اس قبر کا ماہانہ ٹھیکہ کس کے پاس ہے۔ حیدر آباد میں 88 چھوٹے بڑے قبرستان ہیں، صرف 9 کا تعلق بلدیہ سے ہے، گورکنوں کی کوئی رجسٹریشن ہے نہ دیگر قبرستانوں کا کوئی ڈیٹا، نہ ہی قبروں کی قیمت طے شدہ ہوتی ہے۔ کراچی میں قریباً 200 قبرستان ہیں جن میں 90 کے قریب مختلف برادریوں اور تنظیموں کے ہیں۔ 1989ء کے

بعد کوئی نیا قبرستان نہیں بنا۔ سرجانی، تیسر ٹائون، گڈاپ ٹائون میں 3 سے 4 بڑے قبرستان بن سکتے ہیں، ایک بہت اہم مسئلہ بھی سامنے آیا کہ لاوارث لاشوں کے اٹھانے، غسل دینے اور دفنانے کے لیے پولیس کو کوئی فنڈز نہیں ملتے یہ کام ایدھی، چھیپا رضا کارانہ طور پر کرتے ہیں۔ ایدھی صاحب نے تو لاوارث لاشوں کے لیے ہائی وے پر ایک قبرستان بھی بنایا ہوا ہے، زیادہ تر قبرستانوں میں منشیات کے محفوظ اڈے موجود ہیں جہاں سکون سے بیٹھ کر نشے کے عادی افراد نشہ کرتے نظر آتے ہیں۔ لالو کھیت، سخی حسن اور کورنگی کے قبرستانوں میں آپ کو بے شمار افراد نشہ کرتے نظر آئیں گے۔ قبرستانوں کی زمین پر گھر بنے ہوئے نظر آئیں گے، حد ہوگئی قبرستان بھی قبضہ مافیا سے محروم نہیں رہے۔

کراچی میں زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے، والدہ کا انتقال اگر 1987ء میں ہوا اور والدہ کا انتقال 2024ء میں ہوا تو آپ کی یہ خواہش دم توڑ دے گی کہ والد اور والدہ کی قبریں ایک ساتھ ہوں، ضروری بھی نہیں کہ ایک ہی قبرستان میں دونوں کی آخری آرام گاہ ہو۔ شہباز شریف صاحب اب دوبارہ وزیراعظم بن چکے ہیں وہ شہر خاموشاں اتھارٹی جو آپ کے بڑے بھائی کے دور حکومت میں بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جو مکمل نہیں ہوسکا تھا آج اس امر کی ضرورت ہے کہ ہر صوبے میں شہر خاموشاں اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے تا کہ شہروں میں جو ناکلاس زمینیں پڑی ہیں جن پر لینڈ مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے ان سے قبضہ چھڑوا کر وہاں قبرستان بنائے جائیں۔ میت بسوں کا بھی مناسب انتظام کیا جائے بہت ساری فلاحی جماعتوں کی میت بسیں موجود ہیں مگر اب ان کا کرایہ 8 سے 10 ہزار وصول کیا جارہا ہے جب کہ یہ فلاحی جماعتیں عوام کے چندے سے یہ کام کر رہی ہیں ان کو 2 سے 3 ہزار تک کرایہ لینا چاہیے اگر حکومت خود اتھارٹی قائم کرتی ہے تو میت بس کی سروس کو مفت ہونا چاہیے کم از کم ابن آدم کے آخری سفر کو تو آسان بنایا جاسکے۔