ہمارے دانشور دوست کہتے ہیں کہ یہ لوگ ملک کو تباہ کردیں گے لیکن ’’بلڈی سویلینز‘‘ سے ہار نہیں مانیں گے۔ ہار نہ ماننا ان کی سرشت میں شامل ہے جس کی تربیت انہیں انگریز دے کر گیا ہے۔ ہمیں یاد آیا کہ پاکستانی فوج کے پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان سینڈھرسٹ میں انگریزوں کی تربیت یافتہ تھے اور پاکستان کے سول حکمرانوں کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے وہ ابتدا ہی سے امریکا کے ساتھ رابطے میں تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ خود امریکا پاکستانی کمانڈر انچیف کے ساتھ رابطے میں تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو۔ اس کے لیے وہ پاکستانی فوج کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کا طویل منصوبہ رکھتا تھا۔ چناں چہ جب پاکستان میں سول حکومتیں بار بار بدلنے لگیں تو جنرل ایوب خان کو یہ باور کرایا گیا کہ پاکستانی سیاست دان ملک پر حکومت کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ جنرل ایوب خان نے اس کا حل یہ نکالا کہ وہ ملک کا وزیر دفاع بھی بن بیٹھا اور کابینہ میں بیٹھ کر فیصلے ڈکٹیٹ کرانے لگا۔ جب اس سے بھی اس کی مطلق العنان طبیعت مطمئن نہ ہوئی تو اس نے سول حکومت کو رخصت کرکے 1958ء میں اقتدار پر براہ راست قبضہ کرلیا اور ملک میں مارشل لا لگادیا۔ اس کی اس کارروائی کو امریکا کی مکمل تائید حاصل تھی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں پہلا مارشل لا امریکا کی غلامی کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے امریکا کو پشاور کے قریب ہوائی اڈا فراہم کردیا گیا۔ پاکستان گندم میں خود کفیل تھا لیکن امریکا نے زبردستی اپنی گندم بھی پی ایل 480 کے تحت پاکستان کے سرمنڈھ دی اور پاکستان میں زراعت کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ اِس وقت پاکستانی کسان کو جس صورت حال کا سامنا ہے اس کا آغاز جنرل ایوب خان کے زمانے میں ہی ہوگیا تھا۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک تھا اور اس کی معیشت زراعت کی ترقی ہی سے وابستہ تھی لیکن امریکا چونکہ پاکستانی معیشت کی پائیدار ترقی کے خلاف تھا اس لیے جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت نے امریکی پالیسی کے تحت زرعی ترقی پر کوئی توجہ نہ دی اور ترقی کا رُخ صنعتوں کی طرف موڑ دیا۔ بلاشبہ جنرل ایوب خان کے زمانے میں صنعتی ترقی ہوئی لیکن یہ ترقی پائیدار ثابت نہ ہوسکی اور جنرل ایوب خان کے بعد بھٹو نے صنعتوں کو قومیا کر سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ جنرل ایوب خان کے زمانے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی امریکا کے تابع رہی اور امریکا نے پاکستان کو سینٹو اور سیٹو کے فوجی معاہدوں میں پھنسا کر اس کی آزادی و خود مختاری بالکل سلب کرلی۔
جنرل ایوب خان کے زمانے میں امریکا کو پاکستان پر جو غلبہ حاصل ہوا تھا اس کا تسلسل بدستور قائم رہا۔ جنرل یحییٰ خان بھی امریکا کا پروردہ تھا جس نے اپوزیشن کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار کی سول نمائندوں کو منتقلی ناکام بنادی اور مارشل لا لگا کر حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اس نے 1970ء میں پہلے عام انتخابات کرائے تو اس کا خیال تھا کہ ان انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کو قطعی عوامی مینڈیٹ حاصل نہ ہوگا اور وہ انہیں آپس میں لڑا کر حکومت کرتا رہے گا لیکن ون یونٹ کے خاتمے اور صوبوں کی بحالی کے بعد مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں پر آبادی کے اعتبار سے اکثریت حاصل ہوگئی تھی۔ چنانچہ جب ’’ایک آدمی ایک ووٹ‘‘ کی بنیاد پر انتخابات کرائے گئے تو اس بات سے قطع نظر کہ ان انتخابات میں کیا کچھ ہوا، زمینی حقیقت یہی ہے کہ مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے میدان مار لیا تھا وہ متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی پارٹی بن کر اُبھری تھی، حکومت بنانا اس کا حق تھا لیکن جنرل یحییٰ خان اسے یہ دینے پر آمادہ نہ ہوا لیکن اس سے بھی بڑھ کر سیاسی المیہ یہ ہے کہ مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کے قائد مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی بغیر کسی استحقاق کے حکومت میں اپنے شیئر کا مطالبہ کردیا۔ انہوں نے ڈھاکا جا کر عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن سے دو مرتبہ اس موضوع پر مذاکرات کیے جب کوئی بات نہ بنی تو انہوں نے جنرل یحییٰ خان کو عوامی لیگ کے خلاف ملٹری ایکشن کا مشورہ دیا۔ وہ خود بھی اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کرنے کے خلاف تھا۔ چنانچہ اس نے بھٹو کے مشورے پر عوامی لیگ کے خلاف ملٹری ایکشن شروع کردیا۔ بھٹو نے ڈھاکا سے کراچی پہنچنے پر ایک بیان میں کہا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان کو بچالیا گیا۔ حالانکہ یہ پاکستان کو بچانا نہیں اسے تباہ کرنے کے مترادف تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس نے پاکستان کی تباہی و بربادی پر مہر توثیق ثبت کردی۔
اس سانحے کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے لیکن جرنیلوں کی سوچ اور ان کے عمل میں تبدیلی نہیں آئی۔ وہ بار بار پاکستان پر حملہ آور ہوتے اور کشمیر کو فتح کرنے کے بجائے اپنے ہی ملک کو بوٹوں تلے روندتے رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی یہ بات تسلیم نہیں کی کہ پاکستان کوئی مقبوضہ علاقہ نہیں ہے۔ اس کے اصل وارث اس کے عوام ہیں جو اپنے ووٹوں سے اپنے نمائندے منتخب کرنے اور ان کے ذریعے حکومت چلانے کا اختیار رکھتے ہیں، لیکن فروری 2024ء کے انتخابات میں ہوا یہ ہے کہ عوام نے جن لوگوں کو ووٹ دیا تھا ان سے ان کا نمائندگی چھین کر ان بے ضمیر سیاستدانوں کو دے دیا گیا ہے جو امریکیوں کے بقول اپنے اقتدار کے لیے اپنی ماں کو بیچنے میں بھی تردُّد نہیں کرتے۔ اندازہ کیجیے اس سیاستدان کی بے ضمیری، بے غیرتی اور بے حمیتی کا کہ وہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ لہراتا ہوا پاکستان سے رخصت ہوتا ہے اور لندن میں اس بیانیے کو دفن کرکے فوجی مقتدرہ کے ساتھ اس کی شرائط پر سمجھوتا کرلیتا ہے انتخابات میں عوام اسے اور اس کی پارٹی کو مسترد کردیتے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کی ایک عورت سے بری طرح ہار جاتا ہے اسی طرح اس کی بیٹی، اس کا بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے بہت سے لیڈر اپنی ضمانتیں ضبط کراکر بیٹھتے ہیں لیکن پھر فوجی مقتدرہ کے ساتھ سمجھوتے کے نتیجے میں کامیاب قرار پاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی جو بھٹو کے بعد کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوا کرتی تھی سندھ میں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اس سے سمجھوتا کرلیتی ہے۔ رہی ایم کیو ایم تو وہ شروع سے بکائو مال رہی ہے کبھی ’’را‘‘ نے اسے خرید رکھا تھا اب آئی ایس آئی نے اپنی شرائط پر اسے خرید لیا ہے۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ جب تک سیاست میں یہ بے ضمیر اور اقتدار کے حریص عناصر موجود رہیں گے آپ فوجی مقتدرہ کو سیاست سے لاتعلق نہیں کرسکتے۔ کیونکہ وہ ان ہی عناصر کے کاندھے پر رکھ کر بندوق چلاتی اور جمہوریت کا قتل عام کرتی ہے۔ وہ ملک کو تباہ کردے گی لیکن بااصول سیاستدانوں سے ہار نہیں مانے گی۔ ضروری ہے کہ سب سے پہلے بے ضمیر سیاسی عناصر کے خلاف تحریک چلائی جائے قوم ان عناصر کا ہر سطح پر بائیکاٹ اور عدم تعاون کا مظاہرہ کرے۔ یہ کام کیسے ہوگا؟ اس پر تمام محب وطن سیاسی جماعتوں اور پریشر گروپس کو مل بیٹھ کر غور کرنا چاہیے۔