دھوپ چھاؤں کا کھیل

562

سانڈوں کی لڑائی میں کھیت اْجڑ جاتے ہیں۔ کھیت اْجڑ جائیں تو بھوک اُگتی ہے جہاں بھوک ہو وہاں انتشار پھیلتا ہے۔ معاشرہ منتشر ہوجاتا ہے اور معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔ اداروں کے سربراہوں کے احکامات ہوا میں اْڑا دیے جاتے ہیں مْلک آندھیوں کی زد میں آجاتا ہے کہ ہوا کاشت کرنے والوں کو آندھیوں کی فصل کاٹنی پڑتی ہے۔

عزت مآب چیف جسٹس پاکستان فائز عیسٰی کا فرمان ہے کہ ثبوت کے بغیر کوئی مقدمہ زیر ِ سماعت نہیں ہوسکتا مگر زمینی حقائق اْس کے برعکس ہیں کیونکہ عدالتوں میں 90 فی صد مقدمات بغیر ثبوت کے زیر ِ سماعت ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ سیشن کورٹ ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ان کی اپیلوں کی سماعت بھی کرتی ہے۔

بھیڑ چال عوام کی فطرت ہے اْنہیں دوست، دشمن کی پہچان نہیں ہوتی اور جہاں تک سیاست دانوں کا تعلق ہے اْنہیں عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ بدنصیبی یہ بھی ہے کہ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی نظر میں پارٹی پرچم بہت مقدس ہوتا ہے اْن کی خواہش اور وصیت ہوتی ہے کہ اْنہیں پارٹی پرچم میں دفن کیا جائے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر من حیث القوم ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ جو شخص قومی پرچم کا احترام نہیں کرتا اْسے ملک و قوم سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی وہ صرف اپنے مفادات اور تحفظات سے ہی مخلص ہوتا ہے۔ جو قومی پرچم کا احترام کرتا ہے اس کا مرنا اور جینا ملک و قوم کے لیے ہوتا ہے اْس کی ترجیح ملک و قوم کی خدمت کرنا ہوتی ہے کیونکہ وہ اس حقیقت سے واقف ہوتا ہے کہ اقتدار تو دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے حکومت تو آنے جانے والی چیز ہے وہ جانتا ہے کہ ملک ہے تو اس کا وجود بھی ہے کہ بے گھر اور بے وطن ہونا انسان کی سب سے بڑی بدنصیبی ہے۔

یہ کیسا المیہ ہے کہ وطن ِ عزیز پر ایسے لوگوں کو مسلط کیا جاتا ہے جو کسی بیرونی ملک کے بھی شہری ہوتے ہیں خدا جانے فیصلہ ساز قوتیں یہ بات سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتیں کہ کسی دوسرے ملک کا شہری پاکستان کا وفادارکیسے ہوسکتا ہے؟ جس دن فیصلہ ساز قوتوں نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا کہ پاکستان پر حکمرانی کا حق صرف اور صرف پاکستانیوں کو ہے معیشت مستحکم ہوجائے گی۔ عالمی مالیاتی اداروں کی بالادستی سے نجات اِسی صورت میں مل سکتی ہے جب ان کے آلہ کاروں سے نجات حاصل کر لی جائے۔ پاکستان کی مفلسی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ایوانِ اقتدار پر ایسے افراد کا تسلط ہوتا ہے جو دوسرے ممالک کے شہری ہوتے ہیں اور پاکستان سے اْن کا تعلق صرف اقتدار کی حد تک ہوتا ہے۔

جرنیل ہوں یا جسٹس ان کے اثاثے اور اہل ِ خاندان کا تعلق دوسرے ممالک سے ہوتا ہے۔ سبکدوش ہونے کے بعد یہ لوگ بھی وہاں چلے جاتے ہیں اس وقت بھی اہم عہدوں پر تعینات پاکستانی افسروں کا تعلق امریکا، کینیڈا، انگلینڈ اور آسٹریلیا سے ہے ایوانِ اقتدار میں آنے سے قبل وہ غیر ملکی تھے ریٹائرڈ منٹ کے بعد یہ لوگ اپنے ممالک کو واپس چلے جائیں گے۔ اگر فیصلہ ساز قوتیں تہیہ کر لیں کہ پاکستان پر وہی لوگ حکمرانی کر سکتے ہیں جن کا مرنا جینا پاکستان کے ساتھ ہے تو پھر سارے مسائل حل ہوجائیں گے کہ مسائل اْسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب ملکی وسائل پر غیر ملکی قابض ہوں۔

وہ کون ہیں جو ببولوں سے چھاؤں مانگتے ہیں
اِدھر جو ایک شجر ہے وہیں نہیں جاتے
یہ جانتے ہوئے ہم پانیوں میں اْترتے ہیں
کہ ڈرنے والے بھنور کے قریں نہیں جاتے