اعتراف حقیقت

702

اعتراف حقیقت دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب اس کا تعلق ہماری اپنی ذات یا بدذات سے ہو۔
عام طور پر ہمیں دوسروں کے بارے میں معروضی نقطہ ٔ نظر یا معروضی نقطہ ٔ نگاہ اختیار کرنے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی اور عام طور پر ہم سب یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے دوسروں کے بارے میں جو رائے قائم کی ہے، وہ بڑی معروضی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کے بارے میں معروضی رائے بھی وہی شخص رکھ سکتا ہے جو خود اپنے بارے میں معروضی رائے کا حامل ہو۔ خود اپنی ذات کے حوالے سے موضوعیت (Subjectivity) کا شکار کسی دوسرے کے بارے میں کبھی معروضی نقطہ ٔ نظر کے حامل نہیں ہو سکتے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت زندگی بھر یہ اعتراف نہیں کر پاتی کہ وہ اپنے اور دوسروں کے بارے میں معروضی نہیں، موضوعی رائے رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اعترافِ حقیقت مشکل کیوں ہے؟
ہر انسان بہ یک وقت تین حقائق کے روبرو ہوتا ہے: ایک حقیقت یہ ہے کہ ہم خود اپنے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ دوسرے ہمارے بارے میں کس رائے کے حامل ہیں اور تیسری حقیقت یہ ہے کہ در حقیقت ہم کیا ہیں؟ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اصل اہمیت نہ ہماری اپنی رائے کی ہے اور نہ دوسروں کی رائے کی بلکہ اصل اہمیت اس امر کو حاصل ہے کہ ہم کیا ہیں؟ خود کو اپنی اور دوسروں کی رائے سے ہٹ کر دیکھنا ہی دراصل عرفان ذات کا سفر ہے لیکن عملی زندگی میں ہوتا یہی ہے کہ انسان یا تو اپنی رائے کا اسیر ہو جاتا ہے یا پھر وہ بیک وقت اپنی اور دوسروں کی رائے میں قید ہو جاتا ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے بارے میں انسان کی اپنی یا دوسروں کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایسا نہیں ہے، انسان کی اپنی رائے بھی اہم ہے اور دوسروں کی رائے کی بھی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ ان دونوں آراء میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہوتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے بارے میں تمام اچھی باتیں فرض کر لینا بہت اچھا لگتا ہے، کون ہے جس کو اس خیال سے مسرت نہ ہو کہ وہ ذہین ہے، خوبصورت ہے، ایماندار ہے، ہمدرد ہے، غمگسار ہے، سچ بولنے والا ہے لیکن کیا انسان ایسا ہی ہوتا ہے؟ کیا اس میں یہ ساری خوبیاں ہوتی ہیں؟ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ ایک معاملہ اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ کچھ لوگ مختلف وجوہ کی بنا پر خود کو نا پسند کرنے لگتے ہیں۔ انہیں اپنے آپ میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ اْصولی اعتبار سے خود پسندی اور خود مذمتی میں کوئی فرق نہیں کیونکہ یہ دونوں صورتیں ہی اعترافِ حقیقت اور عرفانِ ذات کی راہ کی رکاوٹیں ہیں۔
انسان اپنے اور دوسروں کے بارے میں جو رائے رکھتا ہے، اس کا انسان کی خواہشوں، آرزوؤں اور تمناؤں سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور انسان کی خواہشیں، آرزوئیں اور تمنائیں اس کے مفادات سے متعلق ہوتی ہیں۔ اور مفادات کا معاملہ یہ ہے کہ خواہشوں اور آرزوؤں کے حوالے سے ان کا تعلق زمانے یا دْنیا سے ہوتا ہے۔ اْس زمانے اور اس دنیا سے جو بدلتی رہتی ہے لیکن جس سے ہم آہنگ ہونے ہی کو زندگی کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہونا بری بات نہیں لیکن یہاں اقدار اور پیمانوں کا سوال اْٹھ کھڑا ہوتا ہے اور انسان کو اس بات کا جواب دینا پڑتا ہے کہ دنیا اور زمانہ ہی اس کے لیے پیمانہ ہے یا دنیا اور زمانے کے پیمانوں سے الگ بھی اْس کے پاس کوئی پیمانہ ہے؟ عام طور پر لوگ اپنے پاس دْنیا اور زمانے کے پیمانوں سے الگ ایک پیمانے کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہیں لیکن کم ہی لوگ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اْن کے لیے اصل اہمیت مذہب یا اخلاق کے پیمانوں کی ہے۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ انسان خواہشوں کو زندگی کی علامت سمجھتا ہے۔ خواہش اسے زندگی ہی میں سہی، رنگا رنگی اور حرکت کا احساس دلاتی ہے۔ ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ خواہشات میں اضافے کا مطلب خود فریبی کے امکانات میں اضافے کے سوا کچھ نہیں، چونکہ یہ خود فریبی ایک دلچسپ کھیل بن جاتی ہے، اس لیے انسان خود فریبی سے کبھی نہیں اکتاتا۔ لیکن خود فریبی، خود فریبی ہے اور جہاں خود فریبی ہوگی، وہاں اعتراف حقیقت کا امکان بھی نہیں ہوگا۔ کیونکہ خواہشوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک عرصے کے بعد انفرادی یا اجتماعی زندگی کا قانون بن جاتی ہیں۔ قانون بن جانے کا مفہوم یہ ہے کہ ایک خاص دائرہ حیات میں انسان کی Conditioning ہو جاتی ہے جس سے اچھے اچھے لوگ انحراف نہیں کر پاتے۔ یہ کوئی اتفاقی امر نہیں ہے کہ دنیا کے ہر سچے مذہب نے انسان کو خواہشات کم کرنے کی ہدایت کی ہے اور کم خواہشات کو بھی اقدار کے پیمانے کے تابع رکھنے پر بہت زور دیا ہے۔
اعتراف حقیقت کے مسئلے کا فرد کے داخلی ارتقا سے بہت گہرا تعلق ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ بہت سے لوگ جہاندیدہ ہوتے ہیں، ان کے پاس علم یا معلومات کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی، ذہنی وسائل بھی ان کے پاس وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی شخصیت ایک مرحلے پر منجمد ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس کی اہم ترین وجہ یہی ہوتی ہے کہ اعتراف حقیقت کے خوگر نہیں ہو پاتے۔ ان کی ذہانت ، ان کا علم ، ان کی معلومات ان کے لیے خود فریبی میں اضافے کا سبب ہوتے ہیں۔ انہیں کسی مرحلے پر اس کا احساس ہوتا بھی ہے تو اْس وقت تک خیالات محسوسات اظہار اور ردعمل کے سانچے اتنے مضبوط ہو چکے ہوتے ہیں کہ انہیں توڑنا اور انہیں توڑ کر ایک نئی شخصیت میں ڈھل جانا ان کے لیے ناممکن ہو جاتا ہے۔
یہ اس زمانے کا بہت معروف خیال ہے کہ ہمارے عہد کا انسان بہت حقیقت پسند ہو گیا ہے، وہ خوابوں کی دنیا میں نہیں رہتا۔ حقیقت جیسے ہی اس کے سامنے آتی ہے، اس کا اعتراف کر لیتا ہے لیکن یہ خیال جتنا معروف ہے، اس سے کہیں زیادہ غلط ہے۔ کسی زمانے میں ممکن ہے لوگ خوابوں کی دنیا میں رہا کرتے ہوں لیکن آج کل کے انسانوں کے پاس تو نہ خواب ہیں نہ حقیقت۔ البتہ کچھ واہمے اور کچھ مقبول نعرے ضرور ہیں جنہیں کوئی حقیقت سمجھے تو سمجھ لے۔ یہ ایک بڑی المناک صورت حال ہے اور اس المناک صورت حال کے اسباب ہمارے عہد کی روح کا حصہ ہیں۔
اس عہد کا سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ اقدار کے پیمانے پاش پاش ہو چکے ہیں اور یہ پیمانے اگر کہیں موجود بھی ہیں تو انسانی شخصیت کی تلچھٹ ، ایک نوع کی سطحیت، ہمارے تعصبات، تنگ نظری، ہماری نفرت، حقارت، غصے اور اس قسم کی دیگر کیفیات کے تحفظ کا اور ان کو Legitimized کرنے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال کو ذاتی اور انفرادی زندگی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ عہد حاضر کے آئیڈیلز، مقاصد حیات، طرز زندگی اور چہار جانب سے چلنے والی فکری انتشار کی آندھیوں نے انسانوں کو بڑی حد تک ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔ ایسی زندگی میں معروضیت کہاں سے آئے گی اور انسان حقیقت کا اعتراف کیونکر کرے گا؟ اور اگر کرے گا کبھی تو وہ ایک ادھوری حقیقت کا ایک نہایت معمولی حقیقت کا اعتراف ہوگا۔
اعتراف حقیقت ہمیشہ سے ایک مشکل کام ہے لیکن فی زمانہ تو یہ طے کرنا ہی مشکل ہو گیا ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ فراق نے کیا خوبس ہے کہا۔
اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں