بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ اسکینڈلوں سے بھری پڑی ہے۔ جس جس کو جب جب موقع ملا بہتی گنگا سے سب نے ہاتھ دھو ڈالے۔ ماضی میں چینی، گیس، گھی کے اسکینڈل رونما ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت بھی گندم کے ایک بڑے میگا اسکینڈل نے پاکستان کی سیاست میں ایک ہلچل سے مچائی ہوئی ہے اور اس اسکینڈل کے پس پردہ شخصیات اور حکمراں طبقہ بھی بے نقاب ہوگیا ہے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں لہٰذا ایک دوسرے کو بچانے کے لیے مٹی پائو کا فارمولہ استعمال کیا جا رہا ہے لیکن پنجاب کے کسانوں میں اس وقت ایک بیداری کی لہر نمودار ہوچکی ہے اور جماعت اسلامی کے تحت لاہور میں مسجد شہداء سے لیکر سی ایم ہائوس تک ہونے والے احتجاجی کسان مارچ میں ان کے جذبات کھل کر سامنے آئے ہیں۔ پاکستان میں اس سال گندم کی ریکارڈ فصل ہوئی ہے لیکن یہ رحمت غریب کسانوں کے لیے ایک زحمت سی بن چکی ہے۔ نگراں حکومت کے دور میںچھے لاکھ ٹن گندم جس کی مالیت 200 ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے درآمد کی گئی۔ ایک لاکھ تیرہ ہزار ٹن سے زیادہ کا کیری فاروڈ اسٹاک ہونے کے باوجود یہ گندم نگراں حکومت کے دور میں درآمد کی گئی جوکہ شہباز شریف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی جاری رہا۔ جس سے پاکستان کی معیشت کو 300 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ ملک میں اضافی گندم ہونے کے باوجود نگراں کاکڑ حکومت جن کا کام انتخابات کرانا تھا انہوں نے 28لاکھ میٹرک ٹن کا یوکرین کو گندم کا آرڈر دیا اور ستمبر 2023 سے مارچ 2024 تک درآمد ہوتی رہی۔ اس وقت حکومت کے پاس 22لاکھ 70ہزار ٹن گندم جو ایک سال کا اسٹاک ہے موجود تھی۔ گندم کی درآمد سے مارکیٹ میں گندم کی کثرت کے باعث گندم کی قیمتیں گر گئی اور کسانوں کو اپنی پیداوار کو مناسب قیمت پر فروخت کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کرنا پڑی۔ کسان کو چالیس کلو گندم کے لیے 2.800 سے 3000 مل رہے تھے جبکہ 3905 کی امدادی قیمت کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن حکومت نے کسانوں کو دوٹوک جواب دے دیا کہ موجودہ حالات میں گندم کی خریداری نہیں کی جاسکتی گندم نہ خرید کر حکومت نے کسانوں کو دیوار سے لگا دیا اور ان کا معاشی قتل عام کیا جا رہا ہے۔ اس بحران پر پورے پنجاب میں احتجاجی تحریک شروع کردی گئی اور کسان اتحاد پاکستان کے پلیٹ فارم سے کسان سڑکوں پر نکل آئے حکومت کی جانب سے ان مظلوموں پر تشدد کیا گیا گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا گیا لیکن کسانوں کی تحریک رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے اور ان کا احتجاج روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے گندم خریداری میں غفلت برتنے پر پا سکو کے ایم ڈی اور جی ایم پروکیورمنٹ کو معطل کردیا۔
یوکرین جو کئی برسوں سے حالت جنگ میں ہے اور تابکاری اثرات ہر شہہ میں موجود ہے اس کے علاوہ بندرگاہ میں نمی سے بھی اس گندم پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور نمی گندم کے لیے زہر قاتل ہے۔ یوکرین کی گندم جو جانور بھی نہ کھائیں اسے فلور ملوں کو بیچا جارہا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی سونے جیسی گندم کو کسانوں نے بیچ روڈ پر لاپھینکا ہے اور ان کی سال بھر کی کمائی خاک میں مل گئی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سیاسی اسکورننگ میں لگی ہوئی ہیں وہ غریب کسانوں کی گندم خریدنے سے صاف انکار کررہی ہیں لیکن کسانوں کی امداد کے لیے چار ارب روپے کی امداد کا اعلان کر رہی ہیں۔ اگر اس رقم سے ان غریب کسانوں کی گندم خرید لی جائے تو ان کے آنسو خشک کیے جاسکتے ہیں لیکن چار ارب روپے کے پیچھے کرپشن کا ایک نیا سلسلہ ہے جس سے سب کو موج اُڑانی ہے۔ جب گندم خریدنے کا وقت تھا تو وزیراعلیٰ صاحبہ نے فرمایا کہ خزانہ خالی ہے اب قدموں تلے زمین کھسک رہی ہے تو کسانوں کے لیے چار ارب روپے کا پیکیج لے کرآگئی ہیں اور یہ چار ارب روپے بھی کرپشن کی نظر ہوجائیں گے۔ چند مستحق کسانوں کو یہ پیسے ملیں گے باقی ڈکار لیے جائیں گے۔
کسان ایک بہت بڑی طاقت اور قوت ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ پاکستان بننے کے بعد جاگیرداروں اور وڈیروں کے نرغوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حکمراں، بیورو کریسی اور یہ وڈیرے جاگیر دار سب مل کر ان کا استحصال کررہے ہیں۔ کسانوں کو اگر اپنی قوت اور طاقت کا علم ہوجائے تو ان کی قسمت سنور جائے گی۔ دوسو سال قبل بنگال کے کسانوں نے انگریزوں کے خلاف ایک ایسی تحریک چلائی تھی جس نے انگریز جیسی طاقت کو پسپا کردیا تھا اور وہ کسانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا تھا اور ان کے تمام مطالبات انگریزوں نے تسلیم کرلیے تھے۔ آج پنجاب ہی نہیں سندھ اور بلوچستان میں بھی کسان مصائب پریشانی مشکلات کا شکار ہیں اور اپنے حق کے لیے دربدر پھر رہے ہیں۔ کسان پورا سال سخت محنت کرتا ہے اور جب پھل آتا ہے تو حکومتیں ان کے ساتھ دھوکے بازی کرتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے تمام مظلوم طبقات کسان، مزدور، نوجوان، خواتین اب بیدار ہوجائیں اور 70سال سے اس ملک پر قابض اشرافیہ کو اقتدار سے اتار پھینکے جنہوں نے اپنی عیاشی کے لیے پاکستان 128ارب ڈالرکا مقروض ہے اور ظالم نااہل حکمرانوں نے پوری قوم کو قرضے میں جکڑ دیا ہے اور ہماری آنے والی نسلیں بھی یہ قرضہ چکاتے چکاتے تھک جائیں گی اور یہ قرض کبھی ختم نہیں ہوگا۔
پاکستان کی بدقسمی یہ بھی ہے کہ اس قوم پر ایسے حکمراں مسلط ہیں جنہوں نے قوم کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔ اس غریب اور مقروض بھکاری ملک کی پندرہ لاکھ سرکاری گاڑیوں میں روزآنہ چالیس لاکھ لیٹر تیل جس کی مالیت تقریباً ایک ارب دس کروڑ بنتی ہے مفت ڈالا جاتا ہے۔ اس ملک میں چور، ڈاکو، اسمگلر اشرافیہ بن چکے ہیں۔ ملک میں گندم میگا اسکنڈل میں تقریباً 310 ارب روپے کا گھپلا ہے لیکن موت جیسی خاموشی ہے۔ میڈیا خاموش، سیاستدان خاموش، جاگیر دار وڈیرے ودیگر سیاسی پارٹیاں سب خاموش ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہائوس پر جماعت اسلامی کے کسان مارچ نے کسانوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نومنتخب امیر حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کی طرح پنجاب میں بھی اپنے قدم جمالیے ہیں اور وہ مظلوموں کی مضبوط آواز بنے ہیں۔ کسانوں کو بھی ایک جرأت مند قیادت حاصل ہوگئی ہے جو ان شاء اللہ ان کے حقوق چھین کر رہے گی۔ فیض احمد فیض نے ایسے ہی حالات کے لیے یہ معرکہ آرا نظم کہی تھی جو آج بھی حقیقی تبدیلی لانے والوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیتی ہے۔
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اُچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اے ظلم کے ماتو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے