بائیس خاندانوں سے پراپرٹی لیکس تک، ایک کہانی

584

(آخری حصہ)
ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کا ایک اہم نعرہ یہ بھی تھا کہ ’’اس ملک پر بائیس خاندانوں کا قبضہ‘‘ ہے۔ یہ نعرہ اس قدر مقبول تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسا بڑا زمیندار جس کی پارٹی میں مصطفی جتوئی، طالب المولیٰ اور مصطفی کھر جیسے لاتعداد بڑے بڑے زمیندار تھے، اس نے بھی ووٹ کی سیاست اور عوامی مقبولیت کے لیے سرمایہ داری کے خلاف پارٹی پوزیشن اس حد تک لی کہ پیپلز پارٹی کے منشور کے چار بنیادی نکات میں سے تیسرا نکتہ یہ تھا کہ ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘۔ ملک پر بائیس خاندانوں کا قبضہ ہے، یہ فقرہ بھٹو کی تقریروں کا لازمہ تھا۔ اور اس نعرے سے وہ اپنے جلسوں میں عوام کا لہو گرماتا تھا۔
ڈاکٹر محبوب نے 22 خاندانوں کے نام تو نہیں بتائے تھے لیکن 1963ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں ان کے سمدھی لیفٹیننٹ جنرل ایم حبیب اللہ خان خٹک اور بیٹے کیپٹن گوہر ایوب نے مبینہ طور پر خاندانی اثر رسوخ اور غیر قانونی طریقے سے جنرل موٹرز کے ٹھیکے حاصل کیے جس سے وہ ان امیر ترین خاندانوں میں شامل ہو گئے تھے۔ ان کی گندھارا انڈسٹریز، کرپشن اور اقربا پروری کی ایک بدترین مثال بن گئی تھی جس کے قصے زبان زد عام تھے۔
22 خانوادوں کے بارے میں ممتاز محقق جناب اے آر شبلی نے ایک کتاب بھی تحریر کی، جس کا نام اگرچہ ’22 خانوادے‘ تھا مگر اس میں پاکستان کے صف اوّل کے 30 خاندانوں کا کچا چٹھا بیان کیا گیا تھا۔ اے آر شبلی کی تحقیق کے مطابق یہ 30 خاندان حسب ذیل تھے۔ احمد داؤد، آدم جی، باوانی، سہگل، امیر علی فینسی، رنگون والا، اصفہانی، نصیر اے شیخ، قاسم دادا، خٹک فیملی، حبیب، میاں محمد امین محمد بشیر، ولیکا، سید واجد علی شاہ، رستم کاوس جی، ہارون، سی ایم لطیف، رانا خداداد، ریاض خالد، نون، ہوتی، حاجی دوسہ، حاجی دوست محمد، حاجی اے کریم، منوں خاندان، حئی سنز، ظفر الاحسن، مولا بخش، تاجی محمد خانزادہ اور فقیر فیملی۔
وہ میمن، بوہرے، خوجے اور اسماعیلی، تجارت جن کی گھر کی لونڈی سمجھی جاتی تھی، چنیوٹیوں کے ہاتھوں مات کھا گئے۔ 1990 میں نجکاری کے نام پر صنعتی اداروں کی بندر بانٹ کا عمل شروع ہوا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں ہی کے عہد میں بھٹو کے دور میں قومیائے گئے ادارے کہیں اونے پونے داموں اور کہیں مفت، پرانے مالکان کو واپس کر دیے گئے، ساتھ میں انہیں کروڑوں روپے کے قرضے دیے گئے اور اسی پر بس نہ چلا تو کچھ عرصے بعد یہ قرضے معاف کر دیے گئے۔
گندھارا انڈسٹریز کی کہانی: جنرل موٹرز اوورسیز ڈسٹری بیوشن کارپوریشن یو ایس اے نے کراچی میں 1963 میں لیفٹیننٹ جنرل ایم حبیب اللہ خان خٹک نے جنرل موٹرز سے یہ سہولتیں حاصل کیں۔
حکومت پاکستان نے 1972 میں گندھارا انڈسٹریز لمیٹڈ کو قومی شکل دے دی اور اس کا نام نیشنل موٹرز لمیٹڈ رکھ دیا۔ 1992 میں میس۔ بیبوجی سروسز (پرائیوٹ) لمیٹڈ نے اسے حکومت کی نجکاری پالیسی کے تحت حاصل کیا اور اپنا اصلی نام گندھارا انڈسٹریز رکھا۔ اسی طرح کی کہانیاں سارے خاندانوں کے ساتھ ہیں بائیس خاندانوں کے انکشاف سے کچھ خاندانوں کے کاروبار کا بیڑہ غرق ہوا، کچھ کاروبار چھوڑ گئے کچھ کو قومیالیا گیا البتہ بھٹو اقتدار میں آگئے، عوام کو کیا ملا، دوسرا بڑا انکشاف ایک نگراں وزیر اعظم معین قریشی نے کیا کہ پاکستانی اسمبلی میں گندم اور شوگر مافیا والے ڈیڑھ سو افراد بیٹھے ہیں۔ اس سے عوام کو کیا ملا، تیسرا انکشاف پارلیمنٹ میں پٹرول، گندم اور چینی مافیا کا تھا، آصف زرداری کے ٹین پرسنٹ سے ہنڈرڈ پرسنٹ کا تھا تو کیا ہوا، وہ دوسری مرتبہ صدر بن گئے۔ پھر پاناما سے عدالت نے اقامہ نکالا نواز شریف کو نکالا عمران آگئے بالکل بائیس خاندان والے نعرے کی طرح چور چور کا نعرہ لگا کر، لیکن عوام کو کیا ملا، اور اب 190 ملین پاؤنڈ، توشہ خانہ 9 مئی اور درجنوں انکشافات، نتیجہ وہی اقتدار میں آگئے جن کو چور ثابت کیا گیا تھا تو سب ڈھول پیٹنے سے کیا ہوگا، سارے چور مزید معزز بنیں گے عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔ عدالت سے کیا امید رکھی جائے، وہ تو پاناما کے بقیہ 436 کو نوٹس تک بھی نہیں پہنچی، آڈیو لیکس کی سماعتوں میں مصروف ہے لاپتا لوگوں کے مقدمات کی سماعتوں ہی میں مصروف ہے۔ کراچی سے پشاور گلگت بلتستان تک کشمیر سے بلوچستان تک کسی سے پوچھ لیں وہ پہلے ہی سب جانتا ہے پہلے بائیس خاندان تھے تو اب سو ہوں گے اور بہتوں کے تو نام کبھی نہیں آتے۔ پھر اتنی بڑی دنیا میں اتنے سارے صحافیوں کو پاکستان جیسے مقروض ملک پر تحقیق میں لگانا اور رپورٹ میں کافی بڑا حصہ موجودہ وزیر داخلہ کی اہلیہ کی جائداد پر زور ہے۔ آگے آگے دیکھیے اس انکشاف سے کس کا راج سنگھاسن ڈولتا ہے اور کس کے سر پر سہرا سجتا ہے۔