گوری کے گاؤں کی خوبصورتی تو گانے میں ہی سنی تھی، گاؤں دیکھا نہیں تھا۔ آج میں نے گورے کا گاؤں آنکھوں سے دیکھ لیا۔ میرا خیال ہے کہ برطانیہ کے قدرتی گورے کا گاؤں ہندوستان کی میک اپ زدہ فلمی گوری کے گاؤں سے کہیں زیادہ پیارا اور خوبصورت ہے۔
کل ہمیں اپنے آقاؤں کے دیس کے دو گاؤں دیکھنے کا موقع ملا۔ ان میں سے زیادہ قدیم گاؤں بائبری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ گاؤں چھے ہزار سال پہلے آباد ہوا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اس میں اس وقت چھے سوگھر ہیں۔ انٹرنیٹ اور مقامی لوگوں سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق بائبری (Bibury) نامی اس گاؤں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ گاؤں برطانیہ کے علاقے کاؤٹسوالڈز (Cotswolds) میں واقع ہے اور یہ گائوں قدیم رومی دور سے آباد ہے۔ پرانے زمانے کے نقشوں سے پتا چلتا ہے کہ کسی دور میں یہ علاقہ رومن امپائر کا حصہ رہا ہے۔ بائبری گاؤں میں تاریخی عمارتوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے، جن میں سے کچھ عمارتیں تیرھویں صدی (یعنی آج سے تقریباً گیارہ سو سال پہلے) کی ہیں۔ یہاں پر ارلنگٹن رو (Arlington Row) کے مشہور ویورز کاٹیجز بھی ہیں جو 1380 میں بنائے گئے تھے اور بعد میں سترھویں صدی میں انہیں ویورز کے گھروں میں تبدیل کیا گیا۔ بائبری کی تاریخی اہمیت اور خوبصورتی کی وجہ سے دور دور سے لوگ یہاں سیاحت کے لیے آتے ہیں۔ اس گاؤں کی قدامت اور قدرتی حسن سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
میرا سارا بچپن دیہات میں گزرا ہے۔ دیہات کی زندگی کا ہر پہلو مجھے ازبر ہے۔ میں اپنے وطن کے دیہات اور دیہاتیوں کی ہر ادا اور ہر عادت کو خوب جانتا پہچانتا ہوں۔ اس لیے بائبری کو گاؤں ماننے کو دل نہیں مانتا۔ یہاں کے لوگ اس خوبصورت منظم بستی کو گاؤں کہتے ہیں۔ حالانکہ ٹیڑھی اور پرانے طرز کی کم کشادہ گلیوں کے سوا اس میں گاؤں، گوٹھ یا پنڈ والی کوئی صفت نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ انگریزوں نے گاؤں اور گوٹھ کبھی دیکھا ہی نہیں ہوگا۔ اس گاؤں میں بہترین مکانات ہیں، پکی گلیاں ہیں، صاف ستھری سڑکیں ہیں، چھوٹی مگر سلیقہ مند دوکانیں ہیں۔ صفائی کا بہترین نظام ہے۔ مقامی لوگوں کی ضرورت کے مطابق اسپتال اور اچھے تعلیمی ادارے موجود ہیں۔
گاؤں کے بیچوں بیچ ایک ندی بہتی ہے۔ اس کی چوڑائی ہمارے یہاں کی چھوٹی نہروں جتنی ہوگی یعنی لگ بھگ چار پانچ میٹر۔ اس کے صاف ستھرے بہتے پانی میں زمین کا پیندا تک صاف نظر آتا ہے۔ پانی اتنا یخ بستہ ہے کہ اس میں دس بیس سیکنڈ سے زیادہ پاؤں رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہاں آنے جانے کے لیے سڑکیں پکی لیکن ہماے دیہی علاقوں کی طرح یہ راستے بھی زیادہ کشادہ نہیں ہیں۔ ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ابتداء میں یہ راستے پگڈنڈیاں ہوں گی جو بعد میں آہستہ آہستہ حسب ضرورت کچھ کشادہ ہوتی گئی ہوں گی۔ سیکڑوں سال پہلے پیدل چلنے، بیل گاڑی اور تانگے کے لیے بنائی گئی ان پگڈنڈی نما سڑکوں پر آج کے دور میں اگر سامنے سے کوئی گاڑی آجائے تو بہت مشکل، احتیاط اور مہارت سے کراس کرنا پڑتا ہے۔ دونوں طرف قدرتی گھاس، پودوں اور درختوں نے کسی ناگن کی طرح ان بل کھاتے راستوں کو بہت خوبصورت بنا دیا ہے۔
مستقبل قریب میں تو کوئی امید نظر نہیں آتی لیکن ہوسکتا ہے آج سے گیارہ سو سال بعد جب اقتدار اور مال و زر کے بھوکے ہمارے سیاست ڈان، کرپٹ فرعونی بیوروکریٹ اور بیرون ملک جائدادیں بنانے والے جرنیلوں اور لوٹے ہوئے مال اور حرام پر پلنے والی ان کی نسلوں کی ہڈیاں گل سڑ کر مٹی ہو چکی ہوں گی تو ہمارا ملک بھی خوبصورت ہو جائے۔ ہم تو نہیں، شاید ہماری بہت دور کی نسلوں کو خوشحالی اور امن نصیب ہو سکے۔ ہمارے گاؤں بھی حسین ہو جائیں کبھی قیامت سے پہلے۔
ان کے شہر خوبصورت ہیں، گاؤں خوبصورت ہیں، ان کی گلیاں، بازار، گزرگاہیں، آبادیاں، کھیت اور باغات سہانے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے ملک میں کوئی بھٹو کبھی پیدا ہی نہیں ہوا جبکہ ہمارا بھٹو مرتا ہی نہیں۔ یہ بہت خوش قسمت لوگ ہیں کہ ان کے ہاں کوئی حافظ ہے نہ حاجی، نہ زرداری، نہ شریف ٹبر اور نہ نیازی۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کے ہاں بہروپیے روحانی پیشوا اور دوغلے تنگ نظر مسلکی علماء بھی نہیں ہیں۔ یہاں کے ووٹرز سیاسی طور پر شخصیت پرستی، نسل پرستی اور فرقہ پرستی سے آزاد اور بالغ نظرہیں۔ کسی سیاستدان کی پوجا نہیں کرتے۔ جس طرح جسمانی بیماری کی صورت میں بہترین کھانا بھی اچھا نہیں لگتا، سماجی، سیاسی معاشی بیماری میں خوبصورت ملک بھی سکون وعافیت نہیں دیتا۔ بد دیانت، عاقبت نااندیش، کم ظرف حکمرانوں نے میرے خوبصورت ملک کا ذائقہ چھین لیا ہے۔
اوپر ویورز گھروں کا ذکر ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ تاریخی عمارتیں ہیں جو عموماً سرکاری افسران یا اشرافیہ کی رہائش کے لیے بنائی جاتی تھیں۔ انگریز دور میں برصغیر پاک و ہند میں بھی ایسی عمارتیں ہوتی تھیں۔ (جو اب بھی ہیں) ویورز گھروں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ یہ عموماً بڑے، خوبصورت اور کشادہ ہوتے ہیں۔ ان گھروں میں بڑے کمروں کے ساتھ ساتھ خوبصورت لان بھی ہوتے ہیں جو ان کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ یوکے کے گاؤں اس لیے خوبصورت ہیں کہ یہاں کوئی بزدار وزیر اعلیٰ ہے اور نہ کوئی سید شاہ اور نہ ہی کوئی شوباز اور شعبدہ باز وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز! یہاں گردنوں میں سریے والے جعلی ’’خادم اعلیٰ‘‘ نہیں ہوتے، ملک وقوم کے حقیقی خادم سیاست دان ہوتے ہیں۔
رات کے دریا کا کنارہ بھی کبھی آئے گا
وقت کا کیا ہے، ہمارا بھی کبھی آئے گا