لاہور:مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ عمران خان نے ملاقات میں مجھ سے ہاں میں ہاں ملائی اور پھر کسی کے اشارے پر کمر میں خنجر گھونپ دیا۔
پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے کہا کہ آج تک یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ 1993ء میں ہماری حکومت کی بساط کیوں پلٹی گئی؟ ہم نے اس وقت پاکستان کی ترقی کے لیے جو پالیسی متعارف کرائی تھی، اگر وہ جاری رہتی تو آج ہمارا ملک ایشیا میں نمبر ون ہوتا۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ مجھ سمیت پارٹی کے لوگوں کو بے بنیاد اور جھوٹے کیسز میں گرفتار کیا گیا۔ہماری بنائی ہوئی موٹر وے کو غلط فیصلہ قرار دیا گیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس کی وجہ سے ملک کو کتنا فائدہ پہنچا۔ اس کے بعد ہمیں دوبارہ موقع ملا تو ہم نے پاکستان کو جوہری طاقت بنایا جب کہ پاکستان کو 1998ء میں 5 ارب ڈالر کی پیشکش تھی کہ جوہری دھماکے نہ کیے جائیں اور آج سب کہتے ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ درست تھا۔ اس پورے عمل کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا لگا کر وزیراعظم کو ہائی جیکر بنادیا اور 27 سال قید کی سزا سنادی گئی۔
انہوں نے کہا کہ میں 2013ء کے انتخابات میں سب سے پہلے عمران خان سے ملاقات کے لیے بنی گالہ گیا تھا، لیکن انتخابات میں انہوں نے 35 پنکچر کا الزام لگایا۔ انہیں سمجھایا کہ یہ درست نہیں ہے، ساتھ مل کر ملک کے لیے کام کرتے ہیں۔ پھر اٹھنے لگا تو عمران خان نے کہا کہ بنی گالہ کی سڑک بنوا دیں تو ہم نے بنوادی۔ اس کے بعد سب لوگ لندن گئے اور اس کے بعد دھرنے شروع کردیے گئے۔ نہ جانے انہیں کس کا اشارہ ملا جبکہ انہیں اخلاقاً بتانا چاہیے تھا کہ ہم سے کیا اختلاف ہے۔ وہاں انہوں نے ہاں میں ہاں ملا کر بعد میں کمر میں خنجر گھونپ کر دھرنوں کا سلسلہ شروع کردیا۔
لیگی قائد نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ میرے اچھے دوست ہیں۔ انہوں نے کہا ہم اور آپ مل کر پختونخوا میں حکومت بنائیں تو میں نے اس پر معذرت ظاہر کی اور کہا کہ وہاں تحریک انصاف اکثریت میں ہے تو انہیں حکومت بنانے دیں، جس پر مولانا فضل الرحمن نے میری بات مان لی۔
نواز شریف نے کہا کہ مجھے مسلم لیگ ن کی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ سینٹرل کمیٹی کا نہیں بلکہ کہیں اور سے آیا تھا۔ تنخواہ نہ لینے پر سزا سنا دی گئی اور پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ جاری کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوان ججوں کو، مظاہر نقوی کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ اتنی جائدادیں کیسے بنائیں؟ مظاہر نقوی کو بھی نیب میں لاکر احتساب کیا جائے۔ اگر 75 سال میں احتساب کا سلسلہ جاری رہتا تو پاکستان بہت مختلف ہوتا۔ یہاں تو ایسے بندے کو لے آئے جس نے مزید تباہی مچائی۔