فلسطین میں جاری اسرائیلی دہشت گردی اور ظلم و ستم پر جہاں دنیا بھر میں غم و غصّے کی لہر عروج پر ہے، وہیں اب یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات بھی صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ غزہ پر ظلم و ستم کی انتہاء کرنے والے اسرائیل کی حمایت کرنے کے امریکی فیصلے کے خلاف شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ امریکا میں جن طلبہ نے ظلم، درندگی، نسل کشی خاص طور سے خواتین اور معصوم بچوں کے قتل عام کے خلاف آواز اٹھائی ہے، ان طلبہ کو اپنے عقائد کے اظہار اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے پر امریکی حکام و پولیس کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ امریکی حکام کو یہ جان لینا چاہیے کہ یونیورسٹیوں کے طلبہ کو تشدد کے ذریعے دبانے کی کوشش انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں 20 طلبہ کو حراست میں لیا گیا تھا، جب کہ دسمبر میں بھی فلسطین کے حق میں احتجاج کے باعث 41 طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔ اور اب براؤن یونیورسٹی کے 19 طلبہ کی جانب سے بطور احتجاج بھوک ہڑتال کا اعلان کیا گیا، بھوک ہڑتال میں فلسطینی اور یہودی طلبہ کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کروانا ہے۔ طلبہ کا مطالبہ ہے کہ غزہ میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث کمپنیوں سے تعلقات ختم کر دیے جائیں۔ ساتھ ہی اسرائیلی حمایتی کارپوریشن سے بھی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ ہم اْس وقت تک بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے، جب تک یونی ورسٹی انتظامیہ ہمارے اس مطالبے کو اہمیت نہ دے۔
طلبہ کے احتجاج کو ظلم و استہزاء کے ذریعے روکنا اظہارِ رائے کے حقوق کا قتل ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی کو ’’فریڈم آف اسپیچ اینڈ ایکسپریشن‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی اظہارِ رائے کے ضمن میں عالمی سطح پر انسانی حقوق کے عالمی منشور کا آرٹیکل 19 کہتا ہے: ’’ہر کسی کو رائے اور اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہے، اس حق میں بغیر کسی مداخلت کے رائے رکھنے کی آزادی اور کسی بھی میڈیا کے ذریعے اور سرحدوں کی پروا کیے بغیر معلومات اور خیالات حاصل کرنے اور فراہم کرنے کی آزادی شامل ہے‘‘۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں بعض سیکولر اور لبرل دانشور مغرب کے اس دھوکے میں آکر اسلام پسندوں کو شدت پسندی کا طعنہ دیتے ہیں کہ وہ اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف ہیں۔ حالانکہ کوئی بھی منصف مزاج مسلمان اس کے خلاف نہیں۔ البتہ وہ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری کے خلاف ہے۔ اسلامی نقطہ ٔ نظر میں اظہارِ رائے کی آزادی نہ صرف ایک حق ہے بلکہ بعض اوقات یہ ایک مسلمان کا مکمل فرض بھی بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اظہار کی آزادی، انسانی وقار، عزت اور آزادانہ سوچ کی وجہ سے عطاء کی ہے۔ رسول اللہ کا فرمان ہے ’’ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنا افضل جہاد ہے‘‘۔
آج تک یہی سنتے آئے ہیں کہ آزادیِ اظہار اور اظہارِ رائے نام نہاد جمہوریت کی جان ہے۔ لیکن عملاً حقیقت اس کے برعکس ہے، اس طرح کے واقعات اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ آج جمہوریت نواز ممالک میں ہی سب سے زیادہ اظہارِ رائے کی آزادی سلب کردی گئی ہے۔ اگر ایدی امین دادا کی زبان میں کہیں تو ’’یہاں تقریر کی آزادی ہے، لیکن ہم تقریر کے بعد آزادی کی ضمانت نہیں دے سکتے‘‘۔ اظہارِ رائے، عمل اور مذہب کی جس آزادی کا ڈھنڈورا اقوام متحدہ، یورپ، امریکا اور دیگر سیکولر و جمہوریت نواز ممالک پیٹتے ہیں وہ صرف ایک دھوکہ ہے، عمل کچھ اور ہے۔
مندرجہ بالا واقعہ تو جمہوریت نواز ممالک سے جڑا ہوا ہے، حد تو یہ ہوگئی ہے کہ اب آزادیِ اظہارِ رائے کا قتل تو نام نہاد مسلم ممالک میں بھی ہورہا ہے۔ جی ہاں ہم بات کررہے ہیں، مملکت سعودی عربیہ کی جہاں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر غزہ میں غاصب اسرائیل کے بڑے پیمانے پر قتل عام، اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنانے اور غزہ کی حمایت کرنے والوں کی گرفتاریوں کے ذریعے کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری کیا گیا ہے۔ زیر ِ بحث افراد کو غزہ کی جنگ کے بارے میں رائے کا اظہار کرنے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہے۔
سعودی حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آزادیِ اظہارِ رائے کا مفہوم یہ ہے کہ ہر فرد تقریر و تحریر میں آزاد ہے اور کسی بھی فکر، نظریہ، سوچ، عمل اور نظام کے بارے میں اپنا ایک خاص نکتہ ٔ نظر قائم کرسکتا ہے اور کسی بھی فکر، سوچ، نظریہ یا عمل کی حمایت کرکے اس کی ترویج کرسکتا ہے یا پھر تنقید کرنے سے اس کی اصلاح یا اس سے یکسر منحرف ہو جانے کا بھی حق رکھتا ہے۔ کریک ڈاؤن امریکی حکام اور سعودی عرب کے درمیان اسرائیل کے ساتھ ممکنہ معمول پر آنے والے معاہدے کے حوالے سے جاری بات چیت کے عین مطابق ہے۔ میڈیا کے استفسار کے باوجود سعودی حکام نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ حالانکہ چند وضاحتیں خلیجی ماہر اور یورپی لیڈر شپ نیٹ ورک پالیسی اینڈ امپیکٹ ڈائریکٹر نے مشورہ دیا کہ سوشل میڈیا پر فلسطین کے حامی جذبات کے خلاف ریاض کا حالیہ کریک ڈاؤن ’’اسرائیل‘‘ کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے سنجیدہ ارادے کی نشاندہی ہے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ایک ممکنہ نارملائزیشن ڈیل کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں، خاص طور پر بحرین، سوڈان اور مراکش سمیت امریکا کی ثالثی میں دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے نارملائزیشن کے معاہدوں کے بعد۔ بن یامین نیتن یاہو کے مطابق، اسرائیل اور سعودی عرب اقتصادی اور کاروباری تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی پیش رفت میں مصروف ہیں، چاہے وہ باضابطہ طور پر ایک دوسرے کو تسلیم نہ کریں۔ یہ کریک ڈاؤن غزہ پٹی پر اسرائیلی جارحیت کے بعد عرب ممالک میں قبضے کے خلاف غم و غصّے کو جنم دینے کے بعد سامنے آیا ہے، جس سے برسوں کی معمول کی کوششوں کو درہم برہم کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح اس جذبات کی بازگشت مغربی دنیا میں بھی سنائی دے رہی ہے، جہاں حال ہی میں بڑھتے ہوئے مظاہروں، خاص طور پر یونیورسٹی کیمپس میں دیکھا گیا ہے۔
آن لائن تبصروں اور پوسٹوں کے لیے اپنے ہی عوام جن میں 10 سال کی عمر کے نونہالوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ اور آزادیِ اظہار اور سیاسی اظہار پر پابندیاں سعودی عرب میں معمول ہیں۔ ریاض میں مقیم سفارت کاروں اور انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق اس کے باوجود گرفتاریوں کا حالیہ سلسلہ خاص طور پر 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے اور اس کے نتیجے سے منسلک سیکورٹی خدشات کی وجہ سے ہے۔ یہ دلیل بھی پیش کی گئی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے امکانات نے سعودی معاشرے کے اندر جبر میں اضافہ کیا ہے۔ حکام اور حقوق کے کارکنوں کے مطابق گرفتاریوں کی حالیہ مہم مبینہ طور پر سیکورٹی خدشات سے منسلک ہے۔ ہم سمجھتے ہیں سیکورٹی و امن قائم کرنے کے بجائے، اس سے سعودی عوام کو مزید گرفتاریوں اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آزادیِ اظہارِ رائے کے نام پر موجودہ زیر ِ حراست نظر بندوں پر انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت خصوصی فوجداری عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے، اس عمل کو منصفانہ ٹرائل کے حق کی خلاف ورزی پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ قابل ذکر محروسین میں خواتین کے حقوق کی وکالت کرنے والے فٹنس انسٹرکٹر مناہل ال عتیبی ہیں، جنہیں نومبر 2022ء سے خواتین کے حقوق کی وکالت کرنے پر حراست میں رکھا گیا ہے، اور منال الغفیری، جو سیاسی قیدیوں کی حمایت میں پوسٹ کرنے پر 18 سال کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ خواتین یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی امیدوار سلمیٰ الشہاب کو 2022ء میں سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کی وکالت کرنے پر 34 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ایک اور زیر حراست میڈیا شخصیت ہے جس نے اشتعال انگیز سمجھے جانے والے تبصرے کیے، جب کہ ایک شخص نے مملکت میں امریکی فاسٹ فوڈ چینز کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے محمد بن سلمان ولی عہد بنے ہیں، سعودی عرب میں مبینہ طور پر آزادیِ اظہار کے خلاف کریک ڈاؤن معمول بن گیا ہے۔ اور سعودی حکمران یہ بھی نہیں چاہتے ہیں کہ وہاں فلسطینی حامی تحریک قائم ہو۔
اس مضمون کو تحریر میں لاتے ہوئے یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ الجزیرہ پر پابند لگا دی ہے۔ باطل حق کی آواز کو برداشت نہیں کر سکتا اس ثبوت غاصب صہیونی ریاست نے مشہور میڈیا نیٹ ورک الجزیرہ کو حق گوئی و بیباکی کا تمغۂ امتیاز، پابندی اور فلسطین میں واقع اس کے تمام دفاتر کو سیل کروا کے دیا ہے۔ الجزیرہ غزہ مسلمانوں کی ترجمانی اور اسرائیلی جنگی جرائم دنیا کے سامنے پیش کررہا تھا۔ یہ بھی آزادیِ اظہارِ رائے پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔ آزادیِ رائے انسان کا بنیادی اخلاقی حق ہے، جس سے معاشرے پر مثبت اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ آزادیِ اظہارِ رائے کا مفہوم تو یہ ہے کہ بے خوف و خطر کسی کے بھی سامنے واضح انداز میں اپنا نکتہ ٔ نظر بیان کیا جائے، اس سے اختلاف اور تنقید کی بنیاد پر سوال کیا جائے۔