آزادکشمیر کے سیاسی راہنما سردار عبدالقیوم خان کی سیاست سے لاکھ اختلاف کیا جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ پردے کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت کے حامل دوربین سیاست دان تھے۔ وہ اکثر اسلام آباد کے پالیسی سازوں کو اپنی بات سمجھانے کے لیے جلسوں اور انٹرویوز میں کہا کرتے تھے کہ آزادکشمیر کو اس کے جغرافیے اور آبادی کے زاویے سے نہ دیکھا جائے بلکہ اس خطے کو اس کی نظریاتی اور دفاعی اہمیت کے فریم میں رکھ کر دیکھا جائے۔ آج جب راولاکوٹ اور مظفر آباد جیسے دور افتادہ شہروں میں آٹے اور بجلی کے مقامی مسائل کے حل کے لیے لگنے والے نعروں پر دور بھارت کے شہروں وارنسی اور امیٹھی میں عام شہری نہیں بلکہ بھارت کا متکبر وزیر اعظم نریندر مودی اور ٹارزن وزیر داخلہ امیت شاہ طنزیہ تبصرہ کرتا ہے تو سردار عبدالقیوم خان کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ بھارت کے حکمران چین کے مقابلے کے خبط میں مبتلا ان کی نظریں بیجنگ اور شنگھائی پر مرکوز ہونی چاہیے تھی مگر انہیں انتخابی مہم میں بھی راولا کوٹ اور مظفر آباد یاد ہیں اور وہ اس چھوٹے سے حالات سے غیر متعلق اور سیز فائر کے نتیجے میں الل ٹپ وجود میں آنے والے اس خطے جسے آزادکشمیر کہا جاتا ہے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی نے تو کئی جلسوں میں اس دعوے کے ساتھ کہا کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے لوگ آٹا اور بجلی مانگ رہے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہنیں وہ ایٹمی طاقت ہے تو ہم انہیں چوڑیاں پہنا دیں گے۔ اسی طرح امیت شاہ نے آزادکشمیر کی حالیہ تحریک کا موازنہ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ چند برسوں میں چلنے والی تحریکوں سے کیا۔ ان کا کہنا تھا پی او کے ہمارا حصہ ہے اور ہم اسے حاصل کریں گے۔ 2019 میں آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد کشمیر میں امن آیا جبکہ پاکستانی کشمیر میں اب آزادی کے نعرے بلند ہو رہے ہیں اور احتجاج ہورہا ہے۔ پہلے یہاں آزادی کے نعرے سنائی دیتے تھے اب یہی نعرے وہاں سنائی دے رہے ہیں۔ پہلے یہاں پتھر پھینکے جاتے تھے اب وہاں پتھر پھینکے جا رہے ہیں۔ منی شنکر آئر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے مگر ہم کشمیر حاصل کررہیں گے۔
نریندر مودی اور امیت شاہ آزادکشمیر کے حوالے سے وہی حساسیت پیدا کرتے نظر آرہے ہیں جو پہلے سری نگر کے حوالے سے پیدا کرنا ان کا معمول تھا۔ یوں بھارت کے دور دراز شہروں میں آزادکشمیر کے مسائل اور احتجاج کے اعلیٰ ترین سطح پر تجریے اور تبصرے ہونا قطعی قابل فہم ہے۔ بھارتی حکمران طبقہ اپنے ووٹر کو یہ تاثر دے رہا ہے کہ آزادکشمیر میں آزادی کے نعرے کوئی پہلی بار اور ان کی کسی کامیاب حکمت عملی کے نتیجے میں بلند ہو رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادکشمیر میں ’’آزادی‘‘ کے نعروں کی تاریخ بہت پرانی ہے اور ان نعروں نے ہی کنٹرول لائن عبور کر کے تاریخ کے مختلف ادوار میں سری نگر اور جموں میں بھارت کو اذیت میں مبتلا کیا ہے۔ بھارتی حکمران وقتی طور پر خوش فہمی میں مبتلا ہو کر ان نعروں پر جشن منارہے ہیں مگر تاریخ کے ہر دور میں ان نعروں کے زخم خود بھارت ہی کو سہنا پڑے ہیں۔ دور کیوں جائیں ہوسکے تو امیت شاہ تہاڑ جیل کی جالی سے دور سے ہی سہی یاسین ملک کا چہرہ دیکھ لیں تو انہیں آزادکشمیر میں بلند ہونے والے آزادی کے نعروں کا مطلب سمجھ میں آئے گا۔ یاسین ملک کا عسکری اور سیاسی وجود بھی آزادکشمیر سے بلند ہونے والے اسی نعرے کی پیداوار ہے۔ مزید تحقیق کی ضرورت ہوتو تہاڑ جیل ریکارڈ کی بوسیدہ فائلوں میں محمد مقبول بٹ نامی قیدی کا ریکارڈ چھان مارا جا سکتا ہے جنہیں خود بھارت نے تختہ ٔ دار پر چڑھادیا تھا۔ مقبول بٹ اور آزادکشمیر میں لگنے والے آزادی کے نعروں کا بہت گہرا تعلق رہا ہے۔
کہانی یوں شروع ہوتی ہے کہ پچاس کی دہائی میں جب بھارت کشمیر میں رائے شماری کے وعدوں سے مکرتا چلا گیا تو وزیر اعظم کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے بھرے جلسوں میں بھارتی قیادت کو یہ نعرے یاد دلانا شروع کر دیے جس پر بھارت کی سخت گیر فیصلہ ساز طاقتیں ناراض ہوگئیں اور شیخ عبداللہ کو اقتدار سے برطرف کر کے جیل میں ڈال دیا اور ان پر پاکستان اور چین سے ساز باز کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ ان کی جماعت نیشنل کانفرنس پر پابندی عائد کردی گئی۔ کشمیریوں نے سیاسی مزاحمت کے لیے محاذ رائے شماری کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا اول وآخر مطالبہ کشمیر میں رائے شماری تھا۔ اسی دوران کشمیر کے علاقے ترہگام کا ایک سترہ سالہ نوجوان مقبول بٹ کنٹرول لائن عبورکرکے پشاور میں مقیم ہوا۔ یہ نوجوان تعلیم کے ساتھ ساتھ صحافت سے منسلک ہوا مگر اس کے دل میں آزادی ٔ وطن کی چنگاری سلک رہی تھی سو اس کے پہلو میں دھڑکتا دل بے تاب کچھ کر گزرنے پر تیار رہا۔ اسی دوران آزادکشمیر میں بھی محاذ رائے شماری کی شاخ قائم کی گئی اور کشمیر کی آزادی کے نعرے بلند ہونے لگے۔ اس دوران 1965 کی پاک بھارت جنگ کا اختتام معاہدہ تاشقند پر ہوچکا تھا اور معاہدہ تاشقند مسئلہ کشمیر کا پہلا قتل تھا جب اس مسئلے کو اقوام متحدہ کے ایوان سے بالابالا ایک عالمی مسئلے کے بجائے دو ملکوں پاکستان اور بھارت کے مسئلے کے طور پر حل کرنے کی روش چل پڑی۔ یوں ایوب خان اور لال بہادر شاستری نے تاشقند کے ہوٹل میں مسئلہ کشمیر کو علاقائی اور دوملکوں کے مسئلے کے طور پر زیر بحث لاکر معاہدہ کیا۔ اس عمل نے کشمیریوں کا مایوس کیا اب پاکستان اس مسئلے کو کسی عالمی فورم پر لڑنے کے قابل بھی نہیں رہا اور عالمی طاقتوں نے بھی یہ ڈھول اب دو متعلقہ فریقوں کے گلے میں ڈال دیا۔
اس مایوسی میں کشمیر میں کچھ لوگوں نے الجزائر کی تحریک کی طرز پر کشمیر میں اپنی بنیادوں پر اپنے نعروں کے ساتھ ایک گوریلا طرز جنگ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ مقبول بٹ کی قیادت میں محاذ رائے شماری کا عسکری باز و نیشنل لبریشن فرنٹ تشکیل دیا گیا اور اس تنظیم کے ارکان نے کنٹرول لائن عبور کرکے مقبوضہ کشمیر میں چھوٹی گوریلا کاروائیوں کا آغاز کیا۔ اس تحریک میں پاکستان کے مشہور انقلابی اور رومانوی شاعر احمد فراز بھی مقبول بٹ کے ہم رکاب تھے۔ اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے فلسطینی تحریک کی طرز پر بھارتی جہازوں کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی رہی۔ مقبول بٹ خود کنٹرول لائن عبور کرکے گوریلا کارروائیوں کی قیادت کرتے رہے۔ یہاں تک پاکستان پر نادیدہ دبائو آتا گیا اور ان سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی جانے لگیں اور رہی سہی کسر گنگا جہاز کے اغوا اور لاہور ائرپورٹ پر نذر آتش کرنے نے پوری کردی۔ اس پورے عرصے میں ان سرگرمیوں کا مرکز آزادی کا مطالبہ تھا۔ خیال تھا کہ دنیا اور بالخصوص کمیونسٹ بلاک میں شریک مسلم دنیا آزادی کے نکتے پر کشمیریوں کی حمایت کرے گی۔ مقبول بٹ ایک بار بھارتی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور جیل سے فرار ہو کر آزادکشمیر آئے تو ستر کی دہائی میں دوبارہ کنٹرول لائن عبور کی اور گرفتار ہوگئے اور یوں 1984 میں اندرا گاندھی کی حکومت نے ان کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا۔ اس کے بعد جب کشمیر میں 1988 میں کشمیر میں مسلح مزاحمت کا تانا بانا بُنا گیا تو اس میں ’’آزادی‘‘ کا نعرہ واحد آپشن تھا۔
یہ جنگ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے بینر تلے لڑی جانا تھی تاکہ اس کا مکمل داخلی اور مقامی تحریک ہونا ثابت ہوا۔ لبریشن فرنٹ کے بینر تلے آزادکشمیر سے خودمختار کشمیر کا لٹریچر پرچم اور نظریاتی کارکن تیار ہوکر سری نگر جانے لگے اور اس حکمت عملی کے نتیجے میں آزادی کے نعرے کی حامی نیشنل کانفرنس تیزی سے تحلیل ہو کر لبریشن فرنٹ کا حصہ بن گئی۔ آزادی کے اسی نعرے کے تحت 1990 اور 1992 میں اسی نعرے کی بنیاد پر دوبار آزادکشمیر سے کنٹرول لائن توڑنے کی تحریکیں اُٹھیں اور ان کا بھارتی فورسز سے ٹکرائو ہوتا رہا۔ اس طویل پس منظر کو سمجھے بغیر نریندر مودی آزادکشمیر میں لگنے والے آزادی کے نعروں سے اپنے حامیوں کو ذہنی فریب میں مبتلا کر رہے ہیں۔ پاکستان ان نعروں سے نباہ کرنے کا دہائیوں کا تجربہ رکھتا ہے مگر بھارت کو ان نعروں سے عملی زک پہنچتی ہے اور آج تہاڑ جیل میں یاسین ملک کی قید اور مقبول بٹ کی بے نشان قبر اس کا عملی ثبوت ہے۔