ماں بہن بیٹی سب کی سانجھی ہوتی ہیں

455

آخر ہم کس نظریے کو قوم پر مسلط کر رہے ہیں سیاست میں کس کلچر کو پروان چڑھا رہے ہیں؟ ۳۵ برس سے میں یہ دیکھتا آیا ہوں کہ ہماری سیاسی جماعتیں اقتدار کی خاطر اتنی آگے نکل جاتی ہیں کہ ہم چادر اور چار دیواری، اپنی اسلامی تہذیب، ثقافت تک کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیںبد قسمتی سے 2013 کے بعد سے ہماری سیاست میں ایک ایسے کلچر کو جنم دیا گیا ہے کہ جہاں سیاست دشمنی، ایک دوسرے کی تضحیک، ذاتی مفادات کا کاروبار بن گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ مائیں بہنیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں مگر پچھلے چند سال میں سڑکوں سے لے کر ملک کے ایوانوں تک ایک دوسرے کی مائوں، بہنوں کی عزت وعصمت کو روندتے چلے جانے کو سیاست کا نام دے ڈالا ہے۔ ایک دوسرے کی عزت کو ٹی وی ٹاک شو پر بیٹھ کر نیلام کرنے، دھمکیاں دینے اور تضحیک کی روایت قائم کر لی ہے ہم ایسے سیاستدانوں کے جال میں پھنس گئے ہیں جن کا ضمیر مر چکا ہے۔ ہم آنے والی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے اگر دل میں روز آخرت کا خوف ہو تو۔

چند روز پہلے کے پی کے وزیر اعلیٰ امین گنڈا پور صاحب جو شروع دن ہی سے سیاست میں مخالفین کو ہتک آمیز الفاظ سے للکارتے آئے ہیں جو مرد اور خواتین میں کوئی فرق رکھے بغیر بے ہودہ الفاظ کا کھلا استعمال کرتے آئے ہیں ساتھ ہی اداروں کو بھی گنڈا پور صاحب آڑے ہاتھوں لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ جب سے گنڈا پورصاحب ایک صوبے کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے ہیں اُس دن سے ان کے لہجے میں مزید سختی دیکھی گئی ہے۔ وفاق سمیت مخالفین کو جس زبان میں مخاطب کر رہے ہیں شاید اُن کا منصب اُن کو یہ اجازت نہیں دیتا اُفسوس کی بات تو یہ کہ بانی چیئرمین بھی علی امین گنڈا پور کے اس رویے پر کوئی ایکشن لیتے دکھائی نہیں دیتے۔ شاید خان صاحب کو بھی گنڈا پور کا یہ اندازِ سیاست پسند ہے۔

پچھلے چند دنوں سے خیبر پختون خوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا امین گنڈا پور میں سیاسی محاذ آرائی کا آغاذ ہو چکا ہے۔ گورنر فیصل کریم کنڈی ایک نرم طبیعت کے انسان ہیں جن کی گفتگو سے کسی کی ہتک کی اُمید نہیں کی جاتی مگر گنڈا پور کی للکار پر کنڈی صاحب نے بھی اپنے صبر کا بند توڑتے ہوئے منہ توڑ جواب دے کر سیاسی ماحول کو مزید گرما دیا ہے۔ یقینا یہ سیاسی گرمی کسی کو فائدہ نہیں پہنچائے گی بلکہ سیاسی استحکام کے لیے مزید نقصان کا باعث ہوگی جس کو روکنے کے لیے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت کو فوری نوٹس لینے کی اشد ضرورت ہے۔

کسی بھی جماعت کی اعلیٰ قیادت اور سینئر لیڈر شپ ہی اپنے کارکن اور عوام کو یہ شعور دیتی ہے کہ اُسے کس ماحول میں اپنی سیاست کو پروان چڑھانا ہے کس لہجے میں اپنے مخالفین کو پکارنا ہے۔ ہم نے 1990 کے سیاسی پارے کو بھی دیکھا ہے جس میں کم از کم تضحیک کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی اُس وقت کی قیادت نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کیے، سیاسی میدان میں ایک دوسرے کے گندے کپڑے دھوئے مگر چادر چار دیواری کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ مگر پھر وقت کے ساتھ ساتھ ن لیگ اور پیپلزپارٹی بھی بد نما کلچر کو اپناتے ہوئے ایک دوسرے کی تضحیک پر اُتر آئے یعنی بد قسمتی سے اس روایت کا خاتمہ ہونے کے بجائے اس کو پروان چڑھانا سیاست کا اہم ترین جز سمجھ لیا گیا ہے پھر مرد خواتین سیاستدان سب ہی نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ بنا کر ایک دوسرے کے بیٹ روم تک کو ملک بیرون ملک عیاں کر دیا اور قوم کو ایسی سیاست کا راستہ دکھا دیا گیا تمام جماعتوں نے اپنے کارکنوں کو مخالفین کی فحش جعلی ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کرنے کا ہدف دیا جس کو جو ملا اپ لوڈ کر کے ملک و قوم کی تذلیل دنیا بھر میں کی گئی ۔

یقینا آج دنیا ہم پر جو الزامات عائد کرتی ہے اُس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ الزامات عائد کرنے کا موقع بھی تو ہمارے سیاستدانوں نے فراہم کیا ہے۔ اقتدار کی ہوس نے سیاستدانوں کو اتنا گرا دیا ہے کہ یہ باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں ملک و قوم کو ترقی وخوشحالی کی صف میں کھڑا کرنے کے دعوے کرتے ہیں مگر دنیا کی نظر میں ہم کرپٹ، دھوکے باز، فراڈ، دہشت گرد، جرائم پیشہ اور انتہا پسند جیسے لوگوں کی صف میں کھڑے ہیں جس کا تمام تر کریڈٹ ہمارے ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے ملک کی مذہبی جماعتیں بھی ان حکمرانوں کی کٹ پتلی بنی رہی ہیں جس کی وجہ سے ان سیاسی جماعتوں کے حوصلے مزید بڑھتے چلے گئے ہیں۔ آج بھی وقت ہے کہ ہماری مذہبی جماعتوں کو ایسی سیاست کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، ساتھ ہی ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ سیاست کو سیاست تک محدود رکھیں ماں بہن بیٹی ہم سب کی سانجھی ہوتی ہیں بھرے جلسوں سر عام ان کی تضحیک نہ کی جائے ان کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ کہتے ہیں سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے اگر آپ اس بات کو نہیں مانتے تو کم از کم ایک دوسرے کے خاندانوں کو سر عام دنیا بھر میں یوں بدنام نہ کریں۔ سیاست کی جائے ملک و قوم کی تذلیل کا آپ کو کوئی حق نہیں۔