کیا پھر کوئی انکشاف ہوا ہے کوئی بریکنگ نیوز آئی ہے جس کے سامنے آتے ہی تمام مجرم شرمسار ہوجائیں گے، تمام ملزم اخلاقی جرأت (پتا نہیں یہ کیا ہوتی ہے) کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے مناصب چھوڑ دیں گے، جہاں یہ جائیں گے لوگ اپنا راستہ بدل لیں گے ان کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا پسند نہیں کریں گے۔ ہوا کیا ہے کوئی بتلاؤ کہ نیا کیا ہوا ہے۔ جو ہماری یہ بات سنے گا یہی کہے گا کہ لو جی ان کو خبر ہی نہیں ہے دبئی لیکس کی، بڑے بڑے نام سامنے آ گئے ہیں، خوش قسمتی سے جب یہ کھلا راز آشکار ہوا ہم پاکستان سے بہت دور تھے اس لیے صرف تصور پر اکتفا کیا ورنہ دیکھ تو ہم بھی سکتے ہیں کہ، ہر ٹی وی چینل کے بڑے بڑے اینکر کے ہاتھ میں نیا جھنجھنا ہوگا اس کو بجا بجا کر سب ریٹنگ کی ہنڈیا میں ڈال رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ کیسا تڑکا لگایا۔ لیکن تڑکا تو کسی اور نے لگایا ہمارے اینکرز بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق کیوں مچل رہے ہیں۔ ہمیں اس سے قبل کے بہت سے اسکینڈلز کے لیک یا انکشاف کا تجربہ اور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے لیکن اب یقین ہوچلا ہے کہ کوئی انکشاف ہوجائے پاکستانی عوام کے نصیب بدلنے والے نہیں، ہم اگر کہانی شروع کریں گے تو پاکستان میں بائیس خاندانوں کی دولت کے انکشاف سے کریں گے اور عوام کی قسمت نہ بدلنے کے بارے میں ہماری بات مایوسی پر مبنی نہیں حقائق اور تجربے پر مشتمل ہے جب پاناما لیکس کے بعد اس میں شامل 436 افراد کو چھوڑ کر خاص مقصد کے لیے ایک خانداں کو نشانہ بنایا گیا جب عدلیہ ہی ایسا کرے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ بڑے سے بڑا اسکینڈل بھی عوام کی قسمت نہیں بدل سکتا۔
بائیس خاندانوں کا انکشاف: پاکستانی سیاست میں بہت ساری اصطلاحات بے سوچے سمجھے استعمال ہورہی ہیں ان میں یہ بائیس خاندان بھی ہیں اس اصطلاح کی بنیاد ایک تقریر بنی۔ جس نے دور رس سیاسی نتائج پیدا کیے۔ جنرل ایوب خان کے نام نہاد ’’سنہری ترقیاتی دور‘‘ میں 15 جون 1964ء کو رکن قومی اسمبلی اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق نے بجٹ تقریر کے دوران انکشاف کیا کہ پاکستان (جو اس وقت موجودہ پاکستان اور بنگلا دیش پر مشتمل تھا) کی 60 سے 80 فی صد دولت پر صرف ’’22 خاندان‘‘ قابض ہیں۔ ان کے مطابق 66 فی صد صنعتیں، 79 فی صد بیمہ کمپنیاں اور 80 فی صد بینکوں کا سرمایہ صرف ’’بائیس خاندانوں‘‘ کے تصرف میں ہے ڈاکٹر محبوب الحق کے اس انکشاف کی بنیاد وزارت مالیات کے ایک اعلیٰ افسر جناب ظہیر الدین کی کریڈٹ کمپنی کی رپورٹ پر استوار کی گئی تھی۔ انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ شیڈول اور تجارتی بینکوں نے عوام کی امانتوں میں سے جو روپیہ کاروباری طبقے کو ادھار دینے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے اس میں بڑی بڑی رقوم معدودے چند خاندان کے افراد نکلوا کر لے جاتے ہیں اور نام بدل بدل کر ان سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کمیٹی نے بتایا کہ 22 دسمبر 1957 کو صرف 23 شخصیات ایسی تھیں، جنہیں 33 کروڑ 83 لاکھ روپے بطور قرض دیا گیا تھا۔
1957 کے 33 کروڑ کا آج کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، 31 مارچ 1959 تک ان افراد کی تعداد بڑھ کر 31 اور 31 دسمبر 1961 تک41 ہو گئی۔ ان 41 افراد کو جو رقوم بطور قرض دی گئی تھیں وہ 62کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ 1961 میں اسی بات کو منصوبہ بندی کمیشن کے شعبہ تحقیق کے سربراہ مسٹر آر ایچ کھنڈیکر نے آگے بڑھایا اور ان کی تحقیق کی بنیاد پر 64-1963 کے بجٹ میں وزیر خزانہ مسٹر محمد شعیب نے انکشاف کیا کہ بینکوں نے جو رقم ادھار کے لیے علاحدہ کر رکھی ہے اس سے صرف 20 خاندان مستفیض ہو رہے ہیں۔ ان خاندانوں نے جو شراکتی ادارے اور لمیٹڈ کمپنیاں بنا رکھی ہیں ان کے بیش تر حصص پر ان کی یا ان کے عزیز رشتے داروں کی اجارہ داری ہے۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان کے ماہر مالیات ڈاکٹر ایم این ہدیٰ نے کہا کہ پاکستان کی قومی دولت کے 60 سے 80 فی صد حصے پر صرف 22 خانوادے قابض ہیں۔ یہی بات 15 جون 1964 کو ڈاکٹر محبوب الحق نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہی اور یوں یہ انکشاف ان ہی سے منسوب ہو گیا۔ ڈاکٹر محبوب الحق کے اس انکشاف کا ذوالفقار علی بھٹو نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور جب انہوں نے 1968 میں صدر ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تو ڈاکٹر محبوب الحق کی اس تقریر کو اپنی تحریک کا مرکزی نکتہ بنادیا۔ (جاری ہے)