پاکستانی جرنیلوں نے پاکستان کی ہر چیز کو جعلی بنادیا ہے۔ پاکستان کے انتخابات جعلی ہیں۔ پاکستان کی عدالتیں جعلی ہیں۔ پاکستان کے انتخابی نتائج جعلی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما جعلی ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کے جرنیل بھی جعلی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ پاکستان کے جرنیل سیاسی رہنمائوں کی طرح سیاسی بیانات جاری کرتے ہیں۔ وہ سیاست دانوں کی طرح نیوز کانفرنسوں سے خطاب فرماتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین ثبوت پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس ہے۔ اس پریس کانفرنس کا ہر پہلو قابل اعتراض ہے مگر سب سے قابل اعتراض بات یہ ہے کہ پاک فوج کے ترجمان نے فرمایا ہے کہ انتشاری ٹولے یعنی پی ٹی آئی سے بات نہیں ہوسکتی۔ اس سے بھی اہم بات پاک فوج کے ترجمان نے یہ کہی کہ انتشاری ٹولے کے پاس ایک ہی راستہ ہے اور یہ کہ وہ معافی مانگے۔
عمران خان اور پی ٹی آئی نے اگر فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف سازش کی ہے تو انہیں فوج سے ضرور معافی مانگنی چاہیے۔ لیکن اگر جرم معافی کی بنیاد ہے تو پاکستان کے جرنیلوں کو پوری قوم سے درجنوں معافیاں مانگنی ہوں گی۔
پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قیام پاکستان اور تحریک پاکستان میں کسی فوج اور کسی جرنیل برادری کا کوئی کردار ہی نہیں تھا۔ اس لیے کہ 1940ء سے 1947ء تک پاکستان کی کوئی فوج تھی نہ کوئی اس کا جرنیل تھا۔ چناں چہ تحریک پاکستان کی اساس پاکستان کا نظریہ اور قائداعظم تھے۔ پاکستان کا نظریہ اتنا انقلابی تھا کہ اس نے ایک بھیڑ کو ایک قوم بنا کر کھڑا کردیا تھا۔ تحریک پاکستان سے پہلے قائداعظم صرف افراد کے وکیل تھے مگر نظریہ پاکستان نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بنا کر کھڑا کردیا۔ ان حقائق کے باوجود موقع ملتے ہی پاکستانی جرنیلوں نے پاکستان کے نظریے، اس کے جمہوری کلچر اور قوم کی بالادستی کے تصور پر حملہ کیا۔ جنرل ایوب نے اگرچہ 1958ء میں مارشل لا لگایا مگر امریکا کی گزشتہ برسوں میں سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق جنرل ایوب 1954ء سے امریکا کے ساتھ خفیہ رابطہ استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ امریکیوں کو باور کروارہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ سیاست دانوں کو ہرگز ملک تباہ نہیں کرنے دیں گے۔ یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ پاکستانی جرنیلوں کو ان پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ جنرل ایوب نے بالآخر 1958ء میں مارشل لا لگا کر ملک کے نظریے، جمہوری کلچر، سیاست اور عوامی بالادستی کے تصور کے خلاف سازش کی۔ اس بات پر بھی تمام جرنیلوں کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ جنرل ایوب نے مارشل لا لگاتے ہی 1956ء کے آئین کو ختم کردیا تھا۔ یہ پاکستانی کی آئینی زندگی کے خلاف جنرل ایوب کی بھیانک سازش تھی اور اس بات پر بھی پاکستانی جرنیلوں کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ پاکستان سیاسی عمل کا حاصل تھا مگر جنرل ایوب نے مارشل لا لگاتے ہی ملک کے پورے سیاسی عمل کو معطل کردیا۔ انہوں نے سیاست اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی۔ انہوں نے قومی صحافت کو پابند سلاسل کرکے اس پر کالے قوانین مسلط کردیے۔ اس بات پر بھی جرنیلوں کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ تحریک پاکستان آزادی کی اتنی بڑی تحریک تھی کہ اس کی مثال تلاش کرنا دشوار ہے۔ چناں چہ پاکستان کو ہر اعتبار سے ایک آزاد ریاست ہونا تھا۔ مگر جنرل ایوب نے ملک کی آزادی کا سودا کرلیا۔ انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کو امریکا کی کالونی بنادیا۔ انہوں نے سیٹو اور سینٹو کا طوق پاکستان کے گلے میں ڈال دیا۔ انہوں نے امریکا کو بڈھ بیر میں ایک خفیہ فوجی اڈا فراہم کرکے امریکی غلامی پر ایک اور مہر ثبت کردی۔ اس خفیہ اڈے سے امریکا سوویت یونین کی جاسوسی کرتا تھا۔ سوویت یونین کو بالآخر یہ بات معلوم ہوگئی اور اس نے اس صورت حال پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور پاکستان کے گرد سرخ دائرہ کھینچ دیا۔ جنرل ایوب کی امریکا پرستی اتنی بڑھی کے خود جنرل ایوب کو محسوس ہونے لگا کہ انہوں نے پاکستان کو امریکا کا غلام بنادیا ہے۔ چناں چہ انہوں نے اپنے وزیر اطلاعات الطاف گوہر سے ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کے عنوان ایک کتاب لکھوا کر یہ تاثر دیا کہ ہم امریکا کے دوست ہیں اس کے غلام نہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ مگر جنرل ایوب نے پاکستان کو سیکولر بنانے کی سازش کی۔ انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن کے ذریعے سود کو ’’حلال‘‘ قرار دینے کی سازش کی۔ انہوں نے ایسے عائلی قوانین قوم پر مسلط کیے جو اسلام سے متصادم تھے۔ پاکستانی جرنیلوں کو ان تمام باتوں پر بھی قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔
قائداعظم کے اوریجنل پاکستان میں بنگالی ملک کی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر 1962ء تک فوج میں ایک بھی بنگالی نہیں تھا۔ 1971ء میں جب پاکستان دولخت ہوا تو فوج میں بنگالیوں کی موجودگی صرف آٹھ سے دس فی صد تھی، حالانکہ وہ آبادی کا 56 فی صد تھے۔ یہ صورت حال بھارت نے پیدا نہیں کی تھی، یہ صورت حال پاکستانی جرنیلوں کی پیدا کردہ تھی اور اس بات پر جرنیلوں کو آج بھی قوم سے گڑگڑا کر معافی مانگنی چاہیے۔ جنرل یحییٰ خان نے 1970ء میں جو انتخابات کرائے ان میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ چنانچہ اقتدار شیخ مجیب کو دے دینا چاہیے تھا مگر جنرل یحییٰ نے اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کرنے کے بجائے الٹا ان پر فوجی آپریشن مسلط کردیا۔ اس آپریشن سے پہلے جنرل نیازی نے فرمایا کہ ہم اس بڑے پیمانے پر بنگالی عورتوں کو ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ یہ سب کچھ بہت شرمناک تھا اور پاکستانی جرنیلوں کو ان باتوں پر آج بھی قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ اس پر طرہ یہ ہوا کہ بھارت کے ساتھ جنگ کا آغاز ہوا تو پاکستانی جرنیلوں نے پندرہ دنوں میں بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس طرح ہمارے 90 ہزار فوجی بھارت کے آگے ہتھیار ڈالنے کی ذلت سے دوچار ہوئے۔ بھارت کے آگے ہتھیار ڈالنے اور ملک کو دولخت کرنے پر بھی پاکستانی جرنیلوں کو بار بار قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔
جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کی فوجی حکومتوں کی ناکامیاں سامنے آچکی تھیں اور اس اعتبار سے پاکستانی جرنیلوں کو سبق سیکھ لینا چاہیے تھا مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور 1977ء میں جنرل ضیا الحق نے ملک کے حالات کا فائدہ اٹھاتے ایک بار پھر قوم پر مارشل لا مسلط کردیا۔ جنرل ضیا الحق نے بھی ملک کے جمہوری کلچر کو سبوتاژ کیا۔ انہوں نے بھی قومی سیاست کو داغدار کرنے میں کردار ادا کیا۔ انہوں نے کراچی میں جماعت اسلامی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کے لیے کراچی پر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو مسلط کردیا۔ ایم کیو ایم 35 سال میں کراچی کے 92 ہزار افراد نگل گئی۔ اس بات پر بھی جرنیلوں کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ ملک کے دو دریا جنرل ایوب نے بھارت کے حوالے کیے اور جنرل ضیا الحق کے دور میں سیاچن پر بھارت کا قبضہ ہوا۔ ان دونوں باتوں پر بھی جرنیلوں کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔
یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ جنرل پرویز امریکا کیا اسرائیل کو بھی اتنے عزیز تھے کہ اسرائیل کا صدر رات کو سونے سے پہلے جنرل پرویز کی سلامتی کے لیے دعا کرتا تھا۔ جنرل پرویز مشرف امریکا کے صدر جارج بش کے اشاروں پر اس طرح ناچتے تھے کہ مغربی پریس نے انہیں ’’مشرف‘‘ کے بجائے بش کی نسبت سے ’’بشرف‘‘ کہنا شروع کردیا تھا۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا مگر جنرل پرویز نے ملک کو لبرل بنانے کی سازش کی۔ ان تمام باتوں پر بھی جرنیلوں کو قوم سے بار بار گڑگڑا کر معافی مانگنی چاہیے۔
پاکستانی جرنیل 1970ء سے آج تک انتخابات کو مذاق بنائے ہوئے ہیں۔ اس کا تازہ ترین ثبوت 2024ء کے انتخابات ہیں۔ ان انتخابات سے قبل عمران خان کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو پابند سلاسل کردیا گیا۔ پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان بلا چھین لیا گیا۔ پی ٹی آئی کو جلسے جلوس کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی نے انتخابات میں ساڑھے تین کروڑ ووٹ حاصل کرلیے اور وہ ملک کی مقبول ترین عوامی جماعت بن کر ابھری، مگر جرنیلوں نے انتخابات کو سبوتاژ کردیا۔ انہوں نے سارے انتخابات کو فارم 45 کے بجائے فارم 47 کی نذر کردیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم چوتھے اور پانچویں نمبر پر تھی مگر اسے کراچی کی سب سے بڑی جماعت بنا کر کھڑا کردیا گیا۔ اس سے پہلے جرنیل انتخابات میں دھاندلی کرتے تھے مگر 2024ء میں انتخابات پر ڈاکا ڈالا گیا۔ اس صورت حال پر اگر جرنیل روز پاکستانی قوم سے معافی مانگیں تو کم ہے۔
فوج کے ترجمان نے پی ٹی آئی کو ایک انتشاری گروہ قرار دے کر اس کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پاکستانی جرنیلوں کو کبھی بھارت کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں تھے۔ حالانکہ جرنیلوں کی تاریخ یہ ہے کہ جنرل ایوب نے بھارت سے مذاکرات کیے، جنرل یحییٰ نے بھارت سے مذاکرات کیے، جنرل ضیا الحق نے بھارت سے مذاکرات کیے، جنرل پرویز نے بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگی۔ بھارت پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس نے 1971ء میں پاکستان کو دو ٹکڑ کیا ہے۔ اس وقت بھی وہ بلوچستان میں حالات خراب کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب بھارت جیسی دشمن طاقت سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو قوم سے ساڑھے تین کروڑ ووٹ حاصل کرنے والی پی ٹی آئی سے مذاکرات کیوں نہیں ہوسکتے؟ چنانچہ پاکستانی جرنیل اس موقف پر بھی قوم سے معافی طلب کریں۔