سیاسی ایمان

597

خبر یہ ہے کہ: جمعیت ’’علماء اسلام‘‘ (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنے کو سیاسی بیان قرار دیدیا ہے۔ ’’جمعیت علماء اسلام‘‘ نام سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ یہ کوئی عام سیاسی پارٹی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی اسلامی پارٹی ہے جو علماء پرمشتمل ہے۔ اس لحاظ سے لوگوں کی توقع بھی یہی ہوگی کہ اس کے قائدین و ارکان اسلام کی تعلیمات کا حتی الوسع ایک بہتر نمونہ ہوں گے۔ اپنے قول و عمل میں قرآن وسنت کی تعلیمات اور دینی و عمومی اخلاقیات کا پاس رکھتے ہوں گے۔ مگر بدقسمتی ہے کہ ’’علماء اسلام‘‘ کی یہ جماعت عملی طور پر دیگر سیاسی جماعتوں سے مختلف نظر نہیں آتی۔ یہ جماعت بھی پی پی، نون لیگ، اے این پی وغیرہ کی طرح ایک موروثی سیاسی جماعت ہے۔ مفادات کی خاطر موقف تبدیل کرنے میں علماء اسلام کی یہ جماعت کسی اور جماعت سے مختلف نہیں لگتی۔
وطن عزیز یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان (جہاں نہ اسلام ہے نہ جمہوریت) کے سیاہ ست ڈانوں کے بارے میں ایک بات تو یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کی کسی بات کو سچ نہ سمجھا جائے اور نہ ہی ان کے کسی قول کا اعتبار کیا جائے۔ ان کا ایمان ’’سیاسی ایمان‘‘ ہوتا ہے۔ یہ ایمان اتنا ’’بے ایمان‘‘ ہوتا ہے کہ مفاد کی خاطر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ چولے اور ’’جبے‘‘ بدلتا رہتا ہے۔ دوسری بات ان کے ترجمانوں اور عقل سے پیدل پیروکاروں کے بارے میں بھی یقینی ہے کہ ان کو اپنے لیڈر کی ہر بات کی تائید اور تبلیغ کرنی ہوتی ہے چاہے ان کا دل اسے مانے یا نہ مانے۔ مفادات کی خاطر اپنے موقف تبدیل کرنا اب صرف عام سیاستدانوں کا معاملہ نہیں رہ گیا۔ دین کے نام پر سیاست کرنے والے حضرت ایک ہی جست میں آج سیاسی ’’بے دینوں‘‘ سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ دین کے نام پر مسلکی ووٹ لینے والے حضرت فضل الرحمان کا یہ بیان انتہائی شرمناک ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو یہودی ایجنٹ کہنا محض ایک سیاسی بیان تھا۔ گویا کہ حضرت یہ فرما رہے ہیں کہ عمران خان کے بارے میں ان کا بیان جھوٹ اور بہتان تھا۔ یعنی عمران خان یہودی ایجنٹ نہیں ہے انہوں نے محض سیاسی فائدے کے لیے اسے یہودی ایجنٹ کہا تھا۔ فضل الرحمان عالم ہیں تو وہ جانتے ہوں گے کہ کسی کے بارے میں وہ بات کہنا جو اس میں نہیں بہتان کہلاتی ہے۔ حضرت نے بہتان کو محض سیاسی بیان کہہ کر اپنے تئیں لوگوں کے منہ بند کردیے ہیں۔ لیکن مذہب کے لبادے میں اس بہتان تراشی نے اسلامی، دینی اور عمومی اخلاقیات کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔ حضرت نے اپنے اس بیان سے اپنی مسلکی پارٹی کے لوگوں اور ترجمانوں کو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ چھوٹے دماغ کے پیروکار تو اپنے قائد کی ہر بات کا دفاع کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس پارٹی کے ترجمان اور نمائندے بھی نہایت ڈھٹائی سے اپنے رنگ بدلتے قائد کے بیان کی بے شرمانہ توجیہات پیش کریں گے۔
دوسری طرف مولانا سے سیاسی دوستی کے لیے بے تاب پی ٹی آئی کے رہنما، کارکن اور حمایتی بانی پی ٹی آئی کے ’’مولانا ڈیزل‘‘ اور ’’سب سے بڑے منافق‘‘ والے بیان کے بارے میں کیا کہتے ہیں ابھی کچھ پتا نہیں۔ خان صاحب نے تو اب تک پرویزالٰہی کے ’’سب سے بڑا ڈاکو‘‘ والے بیان کی نہ کوئی وضاحت کی ہے نہ اس سے رجوع فرمایا ہے۔
فضل الرحمان کی سیاسی قلابازیاں کوئی نئی بات نہیں لیکن ان کا حالیہ بیان ان کے سیاسی ایمان کی تاریخ کا بدبودار ترین بیان ہے۔ نام کی حد تک جے یو آئی کوئی عام سیاسی پارٹی نہیں۔ نام کے اعتبار سے یہ علماء کی جماعت ہے یعنی ’’اسلام کے علماء‘‘۔ فضل الرحمان صاحب مرحوم مفتی محمود جیسی عظیم دینی شخصیت کے صاحبزادے تو ہیں ہی یہ ان کے سیاسی پارٹی کے وارث بھی ہیں۔ اسلام کے عالم کو بہت اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ بہتان کیا ہوتا ہے اور کسی پر بہتان لگانے کا گناہ کتنا بڑا ہوتا ہے۔ اصلاً وعملًا جے یوآئی ایک مسلکی جماعت ہے لیکن لوگوں کی نظروں میں یہ ایک دینی جماعت تصور کی جاتی ہے۔ نام کی لاج کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کے قائدین دینی اخلاقیات کا اعلیٰ نمونہ ہوتے مگر یہاں معاملہ بہت مختلف ہے۔ سیاست کے نام پر سب کچھ جائز کر دیا گیا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ قول وعمل کے جھوٹے سیاستدانوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ سیاستدان مجموعی طور پر اخلاقی زوال کے تہہ خانے میں بستے ہیں۔ جس کو سڑکوں پر گھسیٹنا ہوتا ہے اسے صدر بنادیتے ہیں اور جس نے گھسیٹنا ہوتا ہے وہ وزیراعظم بن جاتا ہے۔
’’غیبی امداد‘‘ پر گزارہ کرنے والے درویش صفت مولانا فضل الرحمان کی موروثی دینی پارٹی ’’علماء‘‘ کی پارٹی ہے۔ جے یوآئی کے ’’علماء اسلام‘‘ بہتر بتا سکتے ہیں کہ آیا ان کے قائد کا مذکورہ زیر بحث بیان منافقت کے زمرے میں آتا ہے یا یہ بھی ایمانیات کی کوئی سیاسی شکل ہے۔