پاکستان ہاکی ٹیم ملائیشیا کے شہر ایپوہ میں کھیلے گئے 30ویں اذلان شاہ ہاکی کپ میں دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے کے بعد چاندی کا تمغہ جیتنے کے بعد وطن واپس پہنچ گئی ہے، 13سال بعد ایونٹ کے فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی قومی ٹیم کا وطن واپسی پر شاندار استقبال کیا گیا جس کی وہ یقینا حقدار تھی۔ پی ایم یوتھ لون پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود نے لاہور ائرپورٹ پہنچنے پر ہاکی ٹیم اور انتظامیہ کو ہار پہنا کر استقبال کیا جبکہ اس موقع پر خوشیوں کے نقارے بھی بجائے گئے۔ دوسری جانب وزیر کھیل پنجاب فیصل ایوب نے ایونٹ کا فائنل کھیلنے والی قومی ٹیم کے لیے حوصلہ افزائی کی غرض سے 20 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔ ائرپورٹ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہاکی ٹیم کے کپتان عماد بٹ نے کہا کہ اذلان شاہ کپ میں شاندار کارکردگی دکھانے والی ٹیم پر فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹورنامنٹ میں سلور میڈل کا حصول ملک میں ہاکی کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ کپتان نے کہا کہ ٹیم اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنائے گی اور آئندہ کھیلوں میں ٹائٹل اور فتوحات اپنے نام کرے گی۔
واضح رہے کہ پاکستان ہاکی ٹیم کو چھے ملکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں مقررہ وقت تک میچ دودو گول سے برابر ہونے کے بعد جاپان کے ہاتھوں پنالٹی اسٹروکس میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ فائنل کے آغاز میں پاکستان کو اس وقت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب جاپان جسے پہلی مرتبہ اذلان شاہ ہاکی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے نے پاکستان کے نسبتاً کمزور دفاع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 12ویں منٹ میں پہلا گول کر کے پاکستان پر برتری حاصل کی۔ پاکستان نے تھوڑے ہی وقفے کے بعد پہلا گول کرکے اسکور برابر کیا اور پھر دوسرے ہاف کے شروع میں ایک اور گول کرکے جاپان کی نسبتاً مستعد اور جارحانہ کھیل کھیلنے والی ٹیم پر برتری حاصل کی۔ اس برتری کے بعد بظاہر یہی نظر آ رہا تھا کہ پاکستان تیرہ سال کے طویل عرصے کے بعد یہ ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن میچ ختم ہونے سے قبل جاپان نے اپنے تابڑتوڑ حملوں کے نتیجے میں ایک اور گول کر کے جہاں پاکستان کی جیت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا وہاں وہ میچ کو برابر کروا کر اسے پنالٹی شوٹ آؤٹ تک پہنچانے کی اپنی حکمت عملی میں بھی کامیاب ہوگیا۔ بعد میں پنالٹی اسٹروکس تک میچ پہنچانے کی حکمت عملی کے نتیجے میں وہ یہ میچ واضح برتری سے جیتنے میں بھی کامیاب رہا جب کہ پاکستانی کھلاڑی پنالٹی اسٹروکس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے جس کا نتیجہ پاکستان کی شکست کی صورت میں سامنے آیا۔
البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ مجموعی طور پر پاکستان نے اس ٹورنامنٹ میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اذلان شاہ کپ ٹورنامنٹ کی تین بار چمپئن رہنے والی قومی ٹیم نے حالیہ ایڈیشن میں جنوبی کوریا، ملائیشیا اور کینیڈا کے خلاف تین فتوحات حاصل کیں جبکہ جاپان اور نیوزی لینڈ کے خلاف دولیگ میچز ڈرا کیے اس طرح اسے ناقابل شکست ٹیم ہونے کے اعزاز حاصل ہوا جو پاکستان میں ہاکی کے احیاء کے حوالے سے کافی عرصے بعد تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے۔ پاکستان نے یہ ناقابل شکست پوزیشن ایسے وقت میں حاصل کی ہے جب وہ اس سال جنوری میں اولمپک کوالیفائنگ رائونڈ میں شکست سے دوچار ہوکر اولمپک کی دوڑ سے باہر ہوچکا ہے اور تادم تحریر عالمی کپ میں بھی اس کی شمولیت مشکوک ہے البتہ امید کی جاسکتی ہے کہ حالیہ اذلان شاہ ٹورنامنٹ میں شاندار کارکردگی کی بنیاد پر اس کی رینکنگ میں بہتری کے واضح امکانات پیدا ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں عالمی کپ میں شمولیت کی امید باندھی جاسکتی ہے۔
یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہم معلوم ہوتی ہے کہ اولمپکس اور عالمی کپ کے بعد اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کا شمار ہاکی کے بین الاقوامی مقابلوں میں ایک نمایاں ٹورنامنٹ کے طور پر ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے ہاکی کی نامی گرامی ٹیمیں چھے سے آٹھ کی تعداد میں شرکت کرتی ہیں جن میں آسٹریلیا، برطانیہ، جرمنی اور ہالینڈ جیسی ہاکی کی مایہ ناز ٹیمیں بھی قسمت آزمائی کرتی رہی ہیں جس کی ایک نمایاں مثال آسٹریلیا کا یہ ٹورنامنٹ دس بار جیتنا ہے جب کہ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کو دودو مرتبہ یہ ٹائٹل جیتنے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ اس ٹورنامنٹ کی مستقل میزبان ملائشیا کی ٹیم اب تک یہ ٹائٹل صرف ایک دفعہ جیت سکی ہے۔ 1983 سے شروع ہونے والے اس بین الاقوامی ٹورنامنٹ جسے ورلڈ ہاکی فیڈریشن اسپانسر کرتی ہے کے تیس ٹورنامنٹس میں پاکستان کی ٹیم جہاں اب تک یہ ٹائٹل تین مرتبہ یعنی 1999، 2000 اور 2003 میں جیت کر اپنے نام کرچکی ہے وہاں سات بار یعنی 1983، 1987، 1991، 1994، 2004، 2011 اور 2024 میں پاکستان اس ٹورنامنٹ میں رنراپ رہ چکا ہے جب کہ ماضی میں جب سے یہ ٹورنامنٹ شروع ہوا ہے پاکستان اس میں تین مرتبہ 1985، 2005 اور 2022 میں کانسی کا تمغہ اپنے نام کرچکا ہے۔
اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم کے حوالے سے اگر ایک طرف یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ پاکستان اس ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہا ہے تو سری جانب اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی ٹیم کا انتہائی جارحانہ اور پروفیشنل انداز میں سارے میچوں میں اسی طرح بہترین کارکردگی دکھانا ہے جس طرح کے کھیل کے لیے ماضی میں پاکستانی ٹیم دنیا بھر میں مشہور رہی ہے جس کا کریڈٹ ٹیم کے ساتھ ساتھ ٹیم کی قیادت، کوچ اور منیجر کے علاوہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے عہدیداران کو بھی جاتا ہے۔ حرف آخر یہ کہ اگر پاکستان ہاکی کی دنیا میں ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو مل کر جہاں مناسب وسائل وقف کرنا ہوں گے وہاں اسکول اور کلب لیول پر ہاکی کی بحالی اور ترویج کے لیے ایک جامع اسٹرٹیجی کو بھی روبہ عمل لانا ہوگا۔