قیامِ پاکستان سے اب تک جتنے بھی وزیر ِ ریلوے گزرے ہیں سب ہی نے اپنے حلقے کے لوگوں کو نوازا ہے اور المیہ یہ بھی ہے کہ ضرورت سے زیادہ نوازا گیا ہے جس کی وجہ سے ریلوے کو بہت زیادہ نقصان ہوا۔ ایک بار ہم کراچی سے بہاولپور آرہے تھے کہ دیکھا کہ ٹکٹ چیکر پانچ پانچ روپے لے کر قریبی سواریوں کو بٹھا رہا تھا ہم سے یہ منظر برداشت نہ ہوا۔ سو ٹکٹ چیکر سے کہا اب پتا چلا کہ ریلوے کیوں نقصان میں جا رہی ہے ہماری بات سن کر اْس نے کہا آپ دیکھ رہے ہیں یہ تمام نشستیں بھری ہوئی ہیں لہٰذا یہ ٹرین نقصان میں نہیں جا رہی ہے اور جہاں تک خسارے کا تعلق ہے تو اس کی بنیادی وجہ ضرورت سے زیادہ ملازمین کی بھرتی ہے علاوہ ازیں کسی حادثہ کی صورت میں نقصان کا زیادہ سے زیادہ تخمینہ پیش کیا جاتا ہے ناقص بوگیاں خریدی جاتی ہیں اسی طرح ریلوے سے متعلق دیگر اشیاء بھی ناقص خریدی جاتی ہیں۔
ہم نے اس معاملے پر غور کیا تو بات درست دکھائی دی کیونکہ کوئی بھی ٹرین خواہ کراچی سے چلے یا پشاور سے خالی نہیں ہوتی حتیٰ کہ بعض اوقات سواریاں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ٹرین کا دروازہ کھولنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ تہواروں کے موقع پر ٹرین کی چھت پر بھی جگہ نہیں ملتی اس کی بنیادی وجہ کرپشن ہے اور یہ کرپشن اْس وقت تک مسلط رہے گی جب تک رْکن ِ اسمبلی پارلیمان یا کسی ادارے میں ملازمت کے لیے سرمایہ کاری نہیں کی جاتی۔
ہم ایک قومی اسمبلی کے رْکن کی رہائش گاہ میں بیٹھے کسی معاملے پر گفتگو کر رہے تھے ایک شخص آیا اور رْکن ِ اسمبلی سے کہنے لگا جب آپ کو ووٹ کی ضرورت تھی آپ کسی کام سے انکار نہیں کیا کرتے تھے اب کسی بھی کام کے لیے کہا جائے تو آپ حیلے بہانے کرتے رہتے ہیں۔ جواب دینے سے قبل رْکن ِ اسمبلی نے ہماری سمت دیکھا اور کہا آپ نے ووٹ دیکر کوئی احسان نہیں کیا پیسے لیے تب ووٹ دیے تھے اب کام کرانا ہے تو پیسے دینا ہوں گے یا جس بندے کا کام ہے وہ خود آئے گا تو کام ہوجائے گا۔ پہلے تم نے ووٹ کے لیے پیسے لیے اب جس کا کام کراؤ گے اْس سے بھی پیسے لو گے۔
کوئی بھی شعبہ ہو اس میں سرمایہ کاری منافع حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے اور اب وطن ِ عزیز میں سیاست تجارت بن گئی ہے۔ حالانکہ بزرگوں نے بہت سمجھایا تھا کہ بیوپاری کو راجا بناؤ گے تو بھیک مانگنا مقدر بن جائے گا۔ بھارت میں بھی سیاست میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے مگر وہاں مناسب منافع لیا جاتا ہے۔
بھارت میں فی ٹرین گیارہ لاکھ سواریاں ہوتی ہیں جن کی نگہداشت کے لیے 53 ملازمین ہوتے ہیں اور پاکستان میں فی ٹرین اکیاسی ہزار نشستیں ہوتی ہیں جن کے ساتھ 350 ملازمین ہوتے ہیں۔ جو ریلوے میں خسارے کا ایک بڑا سبب ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھارت میں گیارہ لاکھ سواریوں کے لیے 53 ملازمین ہوتے ہیں تو پاکستان میں کس اْصول کے تحت اکیاسی ہزار سواریوں کے لیے 350 ملازمین ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اپنے حلقے کے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ بھرتی ہے۔ شیخ رشید وزیر ِ ریلوے تھے تو راولپنڈی کے لوگوں کو بھرتی کیا گیا اور جب بہاولپور کے فاروقِ اعظم وزیر ِ ریلوے تھے تو اْنہوں نے جی بھر کے اپنے حلقے کے لوگوں کو بھرتی کیا۔ اسی طرح دیگر محکموں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور ایسا ہوتا رہے گا کہ یہی روّش روایت بن گئی ہے اور ہم من حیث القوم روایت پرست ہیں۔
غریبِ شہر کے خون کا حساب کیا لیں گے
ٹپک رہا ہے لہو، جن کی آستینوں سیاوّل خویش