فارم سینتالیس، سندھ اور تخت نشینی کا کھیل

566

کسی دور کی یہ بات ہے کہ بادشاہ وقت کو بادشاہی خیال آیا کہ وہ پتا چلائے کہ ’اللہ کیا کرتا ہے‘، اُس نے اس سوال کو بھاری انعام اور کڑی سزا سے عام کیا کہ کوئی اسے مطمئن کرکے انعام پائے یا پھر جان سے جائے، کہتے ہیں کہ ایک دہقان نے جب یہ ندائے عام سنی تو وہ دربار شاہی میں حاضر ہوا، دیوان خاص نے شرط و شرائط سے آگاہ کیا تو دہقان نے بھی شرط رکھی کہ میری بات پر بادشاہ کو عمل بھی کرنا ہوگا۔ میرے جواب سے بادشاہ مطمئن نہ ہو تو سر قلم کردے خون معاف ہوگا۔ طے ہوگیا تو دربار سجا، بادشاہ کے ترجمان نے سوال دہقان کے سامنے رکھا کہ اللہ کیا کرتا ہے۔ دہقان نے اطمینان سے سوال سنا اور کہا کہ بادشاہ سلامت تخت سے نیچے اُتریں اور میری جگہ کھڑے ہوجائیں۔ بادشاہ پابند شرط تھا اُترا تو دہقان لپک کر تخت پر جا بیٹھا اور کہا کہ اللہ یہ کرتا ہے۔ بادشاہ کہہ اٹھا بے شک اللہ ہی یہ کرتا ہے۔ تیری دہقان کیا مجال کہ تو میرے تخت پر جا بیٹھے اور میں دیکھتا رہ جائوں اور دہقان کو منہ مانگا انعام دے کر رخصت کیا۔ یہ قصہ یوں یاد آیا کہ مملکت پاکستان میں فارم 47 کے نام پر تخت نشینی کا جو کھیل ہوا تو حیرانی میں ہر اک ڈوب گیا۔ پاکستان کی حکمرانی میں بندر بانٹ ہوئی تو سب سے بڑے صوبے میں جو پنجاب ہے وہاں مرد جن کو ربّ نے قوّام قرار دیا ان پر نصف گواہی کی حامل مریم نواز کو وزیراعلیٰ بنا کر مردانگی کا مذاق اُڑایا گیا اور مرد حضرات نے بھی مُردوں کی طرح بلاچوں و چرا قبول بھی کرلیا۔

یوں ہی سندھ کی حکمرانی پر نظر دوڑائیں تو حیرانی ہوگی کہ وہ لوگ وزیر بنادیے گئے ہیں کہ کل انہیں وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ دہقان کی طرح تخت نشین ہو کر تخت شاہی کا لطف اٹھائیں گے۔ اب بھی ہوسکتا ہے کہ ان وزرا کو بھی اپنی دیکھتی آنکھوں یقین نہ آرہا ہو کہ وہ صوبہ کے سیاہ و سفید کے مالک اور عوام الناس کی گردنوں پر سوار بنا دیے گئے ہیں۔ ان کی ہسٹری دیکھو تو خوب پتا چلتا ہے کہ یہ خادم عوام نہیں بلکہ بطور سزا ان پر مسلط ہوئے ہیں۔ قرآن میں اس صورت حال کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ: ’’ہم کسی کی جان کو کوئی تکلیف نہیں دیتے ہیں مگر یہ کہ اس کے ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہوتی ہے اور اللہ تو بہت سارے قصور معاف کردیتا ہے‘‘۔ تو یہ ان اکثریتی ہاتھوں کی کمائی ہے کہ جو ان کی گردنوں پر مسلط ہوئے ہیں وہ اس معیار کے حکمران ہرگز نہیں جو پیمانہ حکمرانی کے لیے ابوالحسن معاوردی نے الاحکام السلطانیہ میں روایت کی ہے کہ امامت کے اہل کے لیے شرط معتبر سات ہیں۔ عدالت، اتنا علم جو اجتہاد کے لیے کافی ہو، سلامتی حواس، سلامتی اعضا، اصابت رائے، شجاعت، نسب۔ ان شرائط پر اہل حل و عقد کا اجماع ہے صرف نسب پر مختلف فیہ ہے۔ موجودہ حکمران ارکان اسمبلی کی اکثریت تو ملکی آئین کی شق 62 اور 63 پر بھی پوری نہیں اترتی۔ کوئی یہ سوال کرے تو جواب ملتا ہے ان شقوں پر اس دور میں پورا کون اترتا ہے؟ تو یہ جواب عدالت عظمیٰ کے جج کی زبانی یوں بھی آیا کہ جماعت اسلامی ہی بچتی ہے جو اس معیار کی حامل ہے۔ جو سزاوار قوم کو قابل قبول فی الحال نہیں تو پھر واویلا، مہنگائی، بدامنی، قتل و غارت گری، اغوا، رشوت ستانی، حرام خوری، ناانصافی، حق تلفی وغیرہ پر کیوں ہے؟ یہ ظالم جو ’’خود کردہ را علاجے نیست‘‘ کی بھی صورت مسلط ہوتے آرہے ہیں اور اپنی میعاد حکمرانی پوری نہیں کرتے اور ایک ہی رسی سے اب جکڑے حکومت میں پھٹے دل کے ساتھ حکمرانی کررہے اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جو حریف اقتدار تھے اور ہیں بھی یہ اللہ کی حکمت ہے، روبرو اور دوبدو ہیں۔ ربّ جو ارحم الراحمین ہے اس کا فرمان ہے ’’اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے دفع نہ کرے تو زمین میں فساد پھیل جائے۔ اللہ تمام جہانوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے‘‘۔ (البقرہ) اس حکمت کا مشاہدہ سندھ میں ہے جہاں تقریباً 20 سال سے پی پی پی کی حکومت ہے اور تواتر نے جو فساد اس دورانیہ میں بپا کیا ہے اس کو دور کرنے کے لیے کتنا وقت لگے گا یہ تو قدرت کاملہ ہی جانتی ہے۔ سندھ جو باب الاسلام ہے وہ اس تواتر کا سزوار کیوں ٹھیرا، یہ عذاب کیوں ٹل نہیں رہا۔ اس کا جواب اہل حل و عقد کے ذمے ہے جو اقتدار کی تقسیم کے ٹھیکیدار ہیں۔

سندھ میں لسانی فسادات کے ذریعے صنعتوں کی منتقلی ہو یا کوٹا سسٹم سے تفریق کی کارستانی اور ایک ہی پیپلز پارٹی کے سپرد اس صوبہ کی حکمرانی ہو، سب ایک بڑے کھیل کا حصہ ہے۔ سندھ باب الاسلام ہونے کے ناتے ٹارگٹ ہے اغیار کا اور اپنوں کا۔ مگر ربّ کا فارمولا ردفساد، کیوں اس صوبے میں روبہ عمل نہیں ہورہا۔ یہ صوبہ انگارے کی طرح دہک رہا ہے اور سندھی زبان کے مطابق چوپٹ راج کا نمونہ بنا ہوا ہے۔ کیا سندھ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ 40 سال قبل تباہ ہوگیا تھا یہ نکتہ آغاز تو نہیں، حل صرف استغفار ہے جو غضب الٰہی کو سرد کرنے کا آزمودہ مجرب نسخہ ہے۔