گزشتہ دنوں ایک شناسا سے پاکستان کے حالات کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی، وہ حالات سے بہت بددل تھے، اسٹیبلشمنٹ سے بہت شاکی تھے، ان کے دل و دماغ پر بہت بوجھ تھا، وہ بے تکان اپنے دل کا غبار نکال رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ مہنگائی نے لوگوں کو بدحال کر دیا ہے، امن و امان کی صورتحال پر بھی بہت رنجیدہ تھے لیکن ہر بات کی تان وہ بلا تامل اسٹیبلشمنٹ پر لا کر توڑ دیتے، ان کی برہمی ان کے اپنے قابو میں نہیں تھی، وہ بے تکان بولے چلے جا رہے تھے۔ میں نے کسی طرح موقع نکال کر ان سے عرض کیا کہ روزنامہ ایکسپریس 16 مئی 2023 کی خبر کے مطابق پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی تنخواہ 8 لاکھ 96 ہزار 550 روپے ماہانہ تھی، روزنامہ جنگ 12 مارچ 2024 کی خبر کے مطابق صدارتی ذمے داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد ان کو کراچی کے ایک مہنگے علاقے باتھ آئی لینڈ میں سرکاری گھر بھی الاٹ کر دیا گیا ہے، وہ بھڑک اٹھے کہ صدر علوی کو کیوں درمیان میں لے آئے، میں نے مودبانہ عرض کیا کہ پی ڈی ایم کے ٹولے سے نہ پہلے اور نہ اب، عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کی توقعات تھیں یا ہیں لیکن پی ٹی آئی تو ملک اور عام آدمی کے حالات اور معیشت کی خوشحالی اور تبدیلی کے نام پر ہی ووٹ لے کر آئی تھی؟ اس لیے اگر صدر علوی یا پی ٹی آئی کوئی ’’انیشیٹو‘‘ لیتی تو شاید عام آدمی کی تنخواہ اور صدر پاکستان کی تنخواہوں کے درمیان جو تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ سے زیادہ کا فرق ہے اس فرق کو کم کرنے کی کوئی شکل عام آدمی کے حق میں بننے کا کوئی سبب بن جاتا، اس کی زندگی میں کچھ آسانی آجاتی، وہ اسٹیبلشمنٹ پر اتنے برہم ہوئے کہ پھر میری ہمت ہی نہیں ہوئی کہ میں ان سے صدر آصف علی زرداری کا ذکر خیر کرتا کہ انہوں نے اب بحیثیت صدر پاکستان اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے اپنی تنخواہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے، وفاقی وزیر برائے نجکاری عبدالعلیم خان نے بھی ماہانہ تنخواہ، سرکاری گاڑی و دیگر مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، وفاقی وزیر عبدالعلیم خان اجلاسوں و مہمانوں کی خاطر داری بھی اپنی جیب سے کریں گے۔ اچھی بات کی پذیرائی اور اہم حکومتی عہدہ داران کے یہ ذاتی فیصلے بقیہ لوگوں کے لیے مثال بن سکتے ہیں۔
ہماری گفتگو آگے بڑھی، انہوں نے 9 مئی کے سانحہ کو اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی قرار دیتے ہوئے ہنگاموں میں ملوث عناصر کو پرتشدد کارروائیوں سے نہ روکنے کا ملبہ بھی اسٹیبلشمنٹ پر ہی ڈالا، میں نے محسوس کیا بہت سارے لوگوں کی طرح وہ اپنے آپ کو غیر جانب دار رکھنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے خاموش سپورٹر ہیں۔ میرے ذہن میں جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن، ٹیلی وژن پر فحاشی و عریانی، مخلوط تعلیم، سودی معیشت جاری رکھنے، غزہ پر ہونے والے مظالم پر خاموشی، (ن) لیگ، پی ٹی آئی اور پی پی، ان تینوں پارٹیوں کے ایک اور یکساں موقف کے حوالے سے آسمانی بجلی کی مانند سوالات کوندے، میں ان کو مزید نہیں کریدنا چاہتا تھا، مجھے ان کے محسوسات کا اندازہ بھی تھا، انہوں نے بھی میرے ابہام اور ذہن میں اٹھنے والے سوالات کو پڑھ لیا، از خود کہنے لگے میں پی ٹی آئی کا ووٹر نہیں لیکن پی ٹی آئی کو صرف پونے چار سال ہی تو ملے۔
میں نے عرض کیا کہ خلفاء راشدین کو تو ایک ہی دور حکومت ملا تھا لیکن انہوں نے شروعات پہلے دن سے اور اپنی ہی ذات سے کی تھیں۔ اپنی ذات سے شروعات کے لیے تو کسی آرڈیننس اور قانون میں ترمیم کی ضرورت تو نہیں ہوتی۔ حقیقی ضرورت ہو تو مناسب تنخواہ کا حصول عیب کی بات بھی نہیں، انہوں نے میری اصلاح کرتے ہوئے کہا تم کہاں اور کن شخصیات کا آپس میں تقابلہ کر رہے ہو؟ میں نے ان کی بات تسلیم کرتے ہوئے سابق مئیر کراچی عبدالستار افغانی کی مثال دی کہ مئیر ہوتے ہوئے بھی وہ لیاری جیسے پسماندہ علاقہ میں دو کمرے کے فلیٹ میں ہی مقیم رہے اور وہیں سے ان کا جنازہ بھی نکلا۔ میں نے انہیں ناظم کراچی نعمت اللہ خان صاحب کی مثال دی کہ انہوں نے اپنے چار سالہ میئر کے دورانیے کی اپنی پوری تنخواہ زلزلہ فنڈ میں عطیہ کی تھی، وہ خاموش ہوگئے، میری بات ختم ہوئی تو ان کا انداز مختلف ہوگیا، انہوں نے مجھے مایوس کرنے کی کوشش کی، کہنے لگے عوام ایسے لوگوں کو ووٹ نہیں دیتے۔ ان کے ان الفاظ نے مجھے میرے خیال کو تقویت دی کہ یہ پی ٹی آئی کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا طرز تخاطب دیکھ کر میں اس بات کی ہمت ہی نہیں کر سکا کہ حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں حالات کی تبدیلی کا ذکر کردوں، 2024 کے الیکشن میں جماعت اسلامی نے انتخابات میں 25 لاکھ سے زائد ووٹ لیے ہیں۔ کراچی اور خیبر پختون خوا میں ڈاکے کے باوجود یہ ریکارڈ ووٹ ہے۔ پنجاب کا کسان حافظ نعیم کی قیادت میں ظلم و استحصال کے خلاف جاگ اٹھا ہے، لیکن میں انہیں مزید غصہ نہیں دلانا چاہ رہا تھا۔
میں نے سوچا گفتگو کا موضوع تبدیل کرنا چاہیے وہ بھی موضوع بدلنے کے موقع کی تلاش میں نظر آئے، ہم ملکی معاشی حالات پر گفتگو کرنے لگے، میں نے کہا کہ پی ٹی آئی تو اپنے انتخابی وعدے کے برخلاف آئی ایم ایف کے پاس گئی تھی موجودہ حکومت بھی آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز ہے تو پھر کس طرح معاشی حالات تبدیل ہو سکتے تھے یا ہو سکتے ہیں، حل صرف ایک ہی ہے جس کی علمبردار نہ پی پی ہے، نہ پی ٹی آئی اور نہ مسلم لیگ(ن) کہ ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کر دیا جائے۔ میں نے انہیں قرآن کی سورتوں کا حوالہ دیا کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے نفاذ شریعت کے نتیجے میں اوپر سے رزق برسنے اور نیچے سے ابلنے اور خوشحالی کی بشارت دی ہے۔ انہوں نے میری ان باتوں کو سرسری لیا، مجھے روکا اور کہا کہ سود کے بغیر اس عالمی نظام میں کیسے گزارا ہو سکتا ہے؟ مجھے محسوس ہوا کہ قرآن کے علم اور اللہ تعالیٰ کی کہی ہوئی بات کے یقین کے باوجود اگر وہ یہ کہہ رہے ہیں تو یہ ان کے خود ساختہ اسلام کے مفہوم اور معنی ہیں، جو یقینا قرآن کے احکامات سے متضاد اور متصادم ہیں۔
میں نے انہیں بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح سے سراج الحق نے بحیثیت صوبائی وزیر خزانہ کے پی کے میں بینکوں کی نئی سودی شاخوں کے کھولنے پر پابندی لگائی اور ان کی کوششوں کے نتیجے میں کے پی کے قرض فری صوبہ بن گیا، ان کے دور کے بعد اس وقت صوبے کے اوپر کتنا قرض ہے اس کا اندازہ ہر خاص و عام لگا سکتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ میری باتوں سے وہ متاثر ضرور ہوئے ہوں گے، مجھے یقین ہوا کہ اب وہ ضرور اس بات کا اشارہ دیں گے کہ اگر ان کی نفرتوں کا محور اسٹیبلشمنٹ ہے تو ان کی امیدوں اور محبتوں کا محور کون ہے؟۔ ہم خاصے فاصلے سے گفتگو کر رہے تھے جس کا انہوں نے اچانک یہ کہتے ہوئے فوری سلسلہ منقطع کیا کہ ان کے پاس نماز کا وقت ہو گیا ہے، اگر وہ اچانک گفتگو منقطع نہ کرتے تو میں یہ سوال علامہ اقبال کی شاعری سے ماخوذ شعر کی صورت میں ضرور ان سے کرتا۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟