صوبہ سندھ میں خواہ کاروبار ہو یا پھر زراعت، شہر ہوں یا پھر قصبات اور دیہات سبھی حکومتی بے حسی، بدانتظامی اور چہار سو احاطہ کی ہوئی بدامنی کی وجہ سے ویران اور تباہ و برباد ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اب یہ کوئی ’’انکشاف‘‘ ہرگز نہیں رہا ہے کہ سندھ میں حد درجہ بدامنی کی وجہ سے ہر ایک فرد ہر وقت اپنی جان، مال، عزت اور آبرو کو خطرے میں گھِرا محسوس کرتا ہے۔ تقریباً ایک ماہ پہلے کشمور ضلع کے علاقے ملیر سے 5 برس کا معصوم بچہ کچے کے ڈاکوئوں نے اغوا کرلیا تھا، جس کی رہائی کے عوض انہوں نے ورثا سے 50 لاکھ روپے تاوان کی رقم دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ مغوی ایاز نامی بچے کے والد اتنی بڑی رقم بطور بھنگ یا تاوان دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے جس کی وجہ سے اشتعال میں آکر ڈاکوئوں نے معصوم مغوی بچے کو ایک زنجیر اس کے گلے میں ڈال کر درخت سے لٹکا دیا اور پھر اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر بھی ڈال دی، جو فوراً ہی وائرل بھی ہوگئی جس میں معصوم بچہ مارے درد، خوف اور تکلیف کے بُری طرح سے آہ و بکا کرتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اس ویڈیو کا منظر عام پر آنا تھا کہ سندھ بھر میں عوام کے اندر حکومت سندھ، پولیس اور بچے پر تشدد کرنے والے ڈاکوئوں کے خلاف غم و غصہ اور اشتعال کا ایک طوفان سا برپا ہوگیا۔ پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر حکومتی نااہلی کے خلاف شدید ترین تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ متعدد شہریوں میں سنگ دل ڈاکوئوں اور حکومت اور پولیس کے خلاف سماجی اور سیاسی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے، جس کی وجہ سے ضلع کشمور کندھ کوٹ کے ایس پی بشیر احمد بروہی پر بھی سخت دبائو پڑا اور بالآخر اس کے نتیجے میں ڈاکو مغوی بچے کو کشمور کے ایک بارونق علاقے میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ اب پولیس کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے بعداز مقابلہ ڈاکوئوں سے بچے کو بازیاب کروایا۔ جبکہ میڈیا اور عوامی حلقوں میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہوئی ہے کہ پولیس خود پر پڑنے والے سخت حکومتی اور عوامی دبائو کی وجہ سے مغوی بچے کو خود تاوان کی رقم دے کر اور ڈاکوئوں کے دیگر مطالبات کو تسلیم کرنے کے بعد جن میں قید ڈاکوئوں کی رہائی بھی شامل تھی، مغوی بچے کو کچے کے ڈاکوئوں سے آزادی دلوائی۔
حقیقت خواہ کچھ بھی ہو یہ واقعہ کمزور ترین حکومتی رٹ کا ایک منہ بولتا مظہر ہے۔ اسی اثنا میں لاڑکانہ سے اغوا شدہ دو بچوں اور گھوٹکی کے ایک مغوی بچے کی ڈاکوئوں کی جانب سے ان پر تشدد کی وائرل ہونے والی ویڈیو بھی عوام کا دل دہلا گئی۔ ڈاکوئوں نے گزشتہ روز ہی جیکب آباد کے ایک صحافی حاکم ایری کے نوجوان بھانجے اور ایک مغوی اسماعیل کو بھتا اور تاوان نہ ملنے کی وجہ سے گولی مار کر شہید کردیا ہے۔ کندھ کوٹ سے ایک معروف بینک کے اغوا شدہ 5 ملازمین سمیت تاحال دیگر درجنوں مغوی گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور، شکارپور، جیکب آباد اور سکھر کے کچے کے ڈاکوئوں کے قبضے میں اذیت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جن کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے اور ان مغویوں کے اہل خانہ اور ورثا ہمہ وقت ذہنی پریشانی اور تکلیف سے دوچار رہتے ہیں کہ مبادا ان کے پیاروں کے بارے میں کوئی بری خبر سننے کو مل جائے کیوں کہ بے رحم ڈاکو اب تاوان نہ ملنے کے جرم میں اپنے ہاں قید مغویوں کو ہاف فرائی یا قتل کرنے سے بھی بالکل دریغ نہیں کرتے۔ گزشتہ دنوں گھوٹکی کے کچے کے ڈاکو منظور لاشاری نامی مغوی سمیت تین دیگر مغویوں کو ان کے گھٹنوں میں گولیاں مار کر ہمیشہ کے لیے معذور کرچکے ہیں۔ یہ ہے آج کے ترقی یافتہ، جدید اور سائنسی دور کا ڈاکوئوں کے شکنجے میں کسا ہوا صوبہ سندھ جس کے باشندے ہمہ وقت اپنی زندگی خوف، کوفت اور اذیت میں بسر کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
سندھ میں بدامنی کے یہ ابتر حالات دیکھ کر گمان ہونے لگتا ہے کہ سندھ کے قانون کو بھی ڈاکوئوں نے اغواء کرلیا ہے۔ سندھ میں قانون کی بالادستی تو ٹھیری ایک طرف اس کے وجود کا بھی کہیں پر کوئی پتا یا سراغ نہیں ملتا۔ سندھ کے لگ بھگ ایک درجن اضلاع میں قانون اور امن ڈاکوئوں کے ہاتھوں سے یرغمال بنا ہوا اور ڈاکوئوں کے 6 گینگ، جن میں اڑھائی سو یا 300 ڈاکو شامل ہیں سندھ حکومت، پولیس، انتظامیہ اور رینجرز کو مسلسل چیلنج کرنے میں مصروف ہیں۔ چند دن قبل جیکب آباد سے وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر سردار بادل خان بھیو کی ذاتی گاڑی سے جدید ترین غیر قانونی اسلحہ برآمد ہوا تھا، تاہم ہتھیار برآمد کرنے والے تینوں پولیس افسران کا تو فی الفور ضلع گھوٹکی تبادلہ کردیا گیا لیکن مشیر موصوف کے خلاف تادم تحریر کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے۔ جب تک کچے کے ڈاکوئوں کے اصل سرپرست پکے کے ڈاکوئوں کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آئے گا۔ صوبہ سندھ اسی طرح شدید ترین بدامنی سے دوچار رہے گا۔ لیکن اسمبلیوں (صوبائی اور قومی) میں براجمان ڈاکوئوں کے اصل سرپرستوں پر ہاتھ ڈالنا شاید کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اتوار 2مئی تمام معروف سندھی اخبارات کے صفحہ اوّل پر آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا یہ بیان نمایاں انداز میں شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ڈاکو مغویوں کے ورثا کو پولیس کے خلاف احتجاج کرنے پر اُکسا رہے ہیں۔ ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ شہید صحافی جان محمد مہر کے قاتل کچے کے علاقے میں روپوش ہیں جو نوگو ایریا ہے اور پولیس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم وہاں جا کر کارروائی کرسکیں۔ حالاں کہ حکومت سندھ مسلسل کروڑوں بلکہ اربوں روپے سالانہ بجٹ میں مختص کرنے کے علاوہ بھی اضافی طور پر بھاری رقم دیتی رہتی ہے جو زیادہ تر کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے۔
گزشتہ برس مارچ 2023ء میں حکومت سندھ نے پولیس کو فوج کی طرز کے جدید ترین ہتھیار خریدنے کے لیے 2 ارب 80 کروڑ دینے کی منظوری دی تھی آخر وہ رقم کہاں گئی اور کہاں خرچ ہوئی کہ آئی جی جی سندھ مذکورہ نوع کی شکایت کررہے ہیں اور وسائل میں کمی کا رونا رو رہے ہیں۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ حال ہی میں حکومت سندھ نے صوبہ بھر کے 172 ڈی سیز اور اے سیز کے لیے نئی اور جدید ترین گاڑیاں خریدنے کے لیے بھی بھاری رقم مختص کردی ہے۔ اس نوکر شاہی کے افسران کے لیے جن کا عملی طور پر وجود سندھ کے عوام کو کہیں پر بھی دکھائی نہیں دیتا سندھ میں زراعت سے وابستہ ہاریوں اور کسانوں کی حالت زار اور بدحالی کا عالم یہ ہے کہ انہیں گندم کی تیار فصل کی کوئی مناسب قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی بار دانہ، جس کی وجہ سے بے چارے ہاری اتنی سخت محنت مشقت اور اخراجات کے باوجود گندم کی فصل آدھی یا اس سے بھی کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اس پر مستزاد متوقع بارشوں کا خوف اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا خوف انہیں ہلکان کیے جارہا ہے۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا اور دُکھوں کا درماں کرتا ہوا کوئی بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ماسوائے جماعت اسلامی کے۔ ’’جزقیس نہ کوئی اور آیا بروئے کار‘‘ گزشتہ دنوں سندھ بھر میں جماعت اسلامی سندھ کے تحت ضلعی اور مقامی سطح پر ہاریوں اور آبادگاروں کے ساتھ روا رکھے گئے مظالم اور حکومتی زیادتیوں کے خلاف ضلع جیکب آباد میں امیر ضلع دیدار علی لاشاری اور دیگر اضلاع اور مقامات پر زبردست احتجاجی مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا۔ سندھ میں بدامنی اور دیگر مسائل کی تفصیلات اتنی زیادہ ہیں کہ ان پر ایک کتاب باآسانی لکھی جاسکتی ہے۔