امیر حکمراں، غریب ملک

560

خلیفہ ہاروں رشید نے مصر کی فتح کے بعد وہاں پر اپنے بد عقل، بدصورت غلام خصیب کو حاکم مقرر کیا۔ مصر کی سرزمین جس کو فرعون نے اپنا مرکز بنایاتھا، ہارون رشید کا مقصد بھی یہی تھا کہ حاکم کے لیے غلام ہی ہونا کافی ہے، نہ کہ خدائی کا دعویٰ کرنا۔ جیسا کہ ہمارے دورکے حاکم اپنے کو خدا سمجھتے ہیں، ایک بار مصر کے دربار میں خصیب کے روبرو کسانوں نے فریاد کی کہ دریائے نیل میں سیلاب آنے کی وجہ سے ان کے کپاس کے سارے کھیت برباد ہو گئے ہیں تو خصیب نے جواب میں کہا کہ تم لوگوں کو چاہیے کہ روئی کے پودوں کی جگہ اپنے کھیتوں میں اون بوتے کیونکہ اون پانی میں خراب نہیں ہوتا۔ آج ہمارے وطن کا جو حشر ہوا ہے اس پر جو حاکم رہے ہیں ان کا رویہ بھی اس غلام خصیب کی طرح رہا ہے ہمارا وطن جو اس وقت دنیا کے غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے، اس کی معیشت کا حال یہ ہے کہ اس کی کرنسی پڑوسی ملک افغانستان، ایران اور بنگلا دیش سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ بھارت سے تو اس کا مقابلہ ہی نہیں۔ بھارت سے ان کا مقابلہ صرف جنگی ہتھیاروں میں ہی ہو سکتا ہے یا کھیلوں کے میدان میں۔ ہمارے ملک کے حکمراں بھارت کے حکمرانوں کے مقابلے میں وطن کی محبت میں پیچھے ہیں۔ ہمارے ملک کے حکمرانوں سے مراد وہ بھی ہیں جو صاحب اقتدار ہیں اور وہ بھی جو صاحب اختیار ہیں جن کے پاس اختیار ہیں ان کا موازنہ بھارت کے صاحب اختیار سے کیا جائے اس کا اندازہ کسی بہت بڑے ملک کے صاحب اقتدار نے اپنے تبصرے میں اس طرح سے کیا ہے کہ جب بھی ہم بھارت کے صاحب اختیارات سے مذاکرات کرتے تو ہمیں اپنی شرائط منوانے میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بھارتی نمائندے اپنے ملک کے لیے مراعات حاصل کرنے میں ایڑی چوڑی کا زور لگا دیتے اور اپنی غیر معمولی جدوجہد کے بعد مطلوبہ مقاصد بڑی مشکل سے حاصل کرتے اور جب وہ کسی حتمی معاہدے تک پہنچ کر اپنے ملک کے لیے بے تحاشا مراعات حاصل کر کے کسی معاہدے کے قریب پہنچتے تو آخر میں اپنے لیے یعنی اپنے کمیشن کا مطالبہ کرتے جو کہ بادل نا خواستہ ان کو بھی دیا جاتا اس کے برخلاف پاکستان سے جب بھی مذاکرات ہوتے تو ان کے نمائندے سب سے پہلے یہ مطالبہ کرتے کہ ہمارا کمیشن کتنا ہوگا اس کے لیے ہم سے بہت بحث اور تمہید کرتے، خوب بڑھا چڑھا کر اپنا کمیشن وصول کرتے پھر جب پاکستان کے لیے اصل مذاکرات شروع ہوتے تو وہ سب ہماری شرائط پر مطمئن ہو جاتے اس طرح پاکستان کے لیے ہماری تمام شرائط پر معاہدے ہو جاتے یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستان سے ہر معاہدہ با آسانی کرنے میں کامیاب ہو جاتے اس کے برخلاف بھارت کے نمائندے ہمارے دانتوں سے پسینہ نکلوا لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے حکمران امیر ترین ہیں اور پاکستان کی ریاست غریب ترین ہے اس کے مقابلہ میں بھارت کے حکمران غریب میں اور ان کی ریاست امیر سے امیر ترین ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کا چاہے کسی بھی طبقہ سے تعلق ہو ان کا معیار زندگی روز بروز بلند سے بلند تر ہورہا ہے۔ اور عوام ان کی ریاست کا معیار پست سے پست ہو رہا ہے۔ سیاست کے میدان میں بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کا موازنہ کیا جائے تو اس میں بھی زمین آسمان کا فرق سامنے آجائے گا۔ پاکستان کے سیاستدانوں کا معیار زندگی بہت شاہانہ نظر آئے گا اور ان کا موازنہ عرب شہزادوں کے معیار زندگی سے کیا جاتا ہے دنیا کی تمام آسائشوں سے ان کے محلات نما حویلیوں سے بھرے پڑے ہیں، جدید سے جدید ماڈل کی پرآسائش گاڑیوں کا فلیٹ ان کے استعمال میں نظر آئے گا۔ ان کے گھر کے در و دیوار قیمتی نوادرات سے مزین ہوتے ہیں۔ ان کے گھروں کے بیت الخلا میں جدید قیمتی یہاں تک کہ ان کے زیر استعمال سینیٹری کا سامان سونے کا لگا ہو گا ان کے بڑے بڑے ذاتی فارم ہاؤس میں دنیا کی عیاشیوں کی چیزیں بھری پڑی ہوں گی۔ یہاں تک کہ نہ صرف خود ان کے لیے سرکاری اشیاء کا بھی بے دریغ استعمال ہوتا نظر آئے گا بلکہ ان کے ماتحت افراد بھی ان عیاشیوں کے استعمال میں برابر کے شریک نظر آئیں گے۔ ملک کے ہر پر فضا مقام پر ان کے لیے علٰیحدہ فارم ہاؤس ہر آسائش اشیاء سے مزین ملیں گے۔ اس کے برخلاف پڑوسی ملک کے سیاست دانوں کا طرز زندگی انتہائی سادہ اتنا کہ پاکستان کے تیرے چوتھے درجہ کا حکمران کا طرز زندگی ان سے کہیں بہتر دکھائی دیتا ہے۔

پاکستان کے حکمرانوں جن میں صدر، وزیر اعظم جس میں عمران خان کا عالی شان گھر بنی گالا میں ہو۔ یا نواز شریف کا گھر جاتی امراء رائے ونڈ میں ہو یا لندن میں ان کے قیمتی فلیٹ ہوں، آصف زرداری کا بلاول ہاؤس ہو یا سرے محل یا زرعی زمین کی جاگیر ہو یا شوگر ملیں: ان کے تمام کے تمام وزراء کا بھی معیار زندگی کم و بیش اس ہی قسم کا ہے پھر ان کے نیچے سیکرٹریوں، ڈپٹی سیکرٹریوں، سیکشن افسروں کا طرز زندگی بھی پڑوسی ملک کے بڑی سے بڑی سیاسی شخصیات کے مقابلے میں انتہائی بلند نظر آئے گا بلکہ وہاں کے سیاسی حکمران جو صاحب اقتدار ہونے کے باوجود صاحب اختیار ہیں ان کی طرز زندگی انتہائی سادہ نظر آتی ہے۔ ان کے معاشرے میں فوجی جرنیلوں کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ان کا ایک جرنیل جگجیت سنگھ اروڑا جس نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کی فوج کو شکست دینے والی فوج کی قیادت کی اور مشرقی پاکستان کو فتح کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ یہ کردار ایسا ہی ہو

سکتا ہے جیسا کہ اگر کوئی پاکستان کی فوج کا جنرل کشمیر کو آزاد کروا کر ادا کرے۔ اس جنرل اروڑا نے 16 دسمبر کے حوالے سے اپنے انٹرویو میں جو کسی چینل نے ریکارڈ کیا جس میں وہ ریٹائر منٹ کے بعد ایک چھوٹی سی زرعی زمین کے ٹکڑے کی دیکھ بھال کر کے اسے اپنی بقیہ زندگی کا ذریعہ معاش بنائے ہوئے تھا۔ وہ ہمارے ملک کے کسی معمولی سپاہی کے مقابلے کا تھا جو انتہائی عاجزانہ نظر آتا ہے۔ ان کا موجودہ سرونگ جنرل بھی اپنی فوج کے لیے معمولی سے معمولی مراعات حاصل کرنے کے لیے وزیر اعظم تو کجا ان کے وزیر یا سیکرٹری کے کمرے کے باہر گھنٹوں اپنی باری کا انتظار کیا کرتے ہیں یہی حال ہمارے دوسرے پڑوسیوں کے فوجی حکمران کا ہے۔ جو نہ اقتدار میں بلکہ نہ صاحب اختیار ہیں ہمارے فوجی حکمرانوں کے برعکس۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا ملک انتہائی غربت کے مسائل سے دوچار ہے، یوں محسوس ہوتا ہے، زندگی کے ہر شعبہ میں غلامانہ ذہنیت کے حکمران مسلط ہیں جو کہ اپنے اپنے شعبوں میں خصیب کی پیروکار دکھائی دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارا ملک غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ آج دنیا بھر میں ہمارے حکمران بھکاریوں کی طرح ہر ملک میں کشکول لے کر گھوم رہے ہیں، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے دنیا کی ہر نعمت اس ملک میں موجود ہے ان وسائل کو اگر خلوص دل سے استعمال کیا جائے تو ہماری حیثیت بھیک مانگنے والے کی نہیں بلکہ دوسروں کو نوازنے کی ہو۔ لیکن ہمارے ملک جو امیر ترین حکمران ہیں وہ مزاجاً غلام ہیں اپنے اپنے شعبوں میں غلام خصیب ہیں جس کی وجہ سے عوام اور ریاست غریب اور حکمراں امیر سے امیر ترین ہیں۔