شہید عبدالحفیظ بجارانی کی یاد میں تعزیتی تقریب

460

7 رمضان المبارک کو بعد نماز مغرب اپنے گھر جاتے ہوئے عبدالحفیظ بجارانی جماعت اسلامی سندھ کے صوبائی نائب قیم ایک سڑک حادثے میں شہید ہوگئے تھے۔ اس وقت وہ اپنی گاڑی خود ہی چلا رہے تھے کہ مخالف سمت سے آنے والی گاڑی سے تصادم کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ ان کے روڈ حادثے میں یوں اچانک شہید ہونے پر اپنے اور پرائے سبھی دم بہ خود رہ گئے تھے اور ہر ایک کو یہ بات تسلیم کرنی پڑی تھی کہ موت کس طرح سے ہر وقت تاک میں رہتی ہے اور جب کسی کی حیات مستعار پوری ہوتی ہے تو پھر کس انداز سے فرشتہ اجل حکم خداوندی کو بجا لانے میں ایک پل، ایک لمحہ اور ایک ساعت کی بھی تقدیم و تاخیر نہیں کیا کرتا۔ شہید بجارانی کی اچانک اس دنیا سے رخصتی کے صدمے نے ان کے تمام جاننے والوں کو ایک طرح سے نڈھال اور بہت زیادہ دل گرفتہ کردیا تھا۔ بجارانی صاحب کا شمار تحریک اسلامی سندھ کے ان رہنمائوں میں سے تھا جنہوں نے اپنا سارا دنیاوی کیریئر جماعت اسلامی کی سرگرمیوں اور دعوت کے لیے تج ڈالا تھا۔ جو اللہ کی راہ میں خود کو وقف کردے تو پھر لامحالہ ایسے فرد کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہادت کے اگلے روز جب ان کی نماز جنازہ سابق امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے پڑھائی تو یوں لگتا تھا کہ گویا عوام کا ایک نہ ختم ہونے والا جم غفیر ہے جو شہید عبدالحفیظ بجارانی کی محبت، چاہت اور ان سے عقیدت کی بنا پر نہ صرف سندھ بلکہ بلوچستان اور پنجاب تک سے بھی اْمنڈ آیا تھا۔ ان سے تعلق رکھنے والی ہر آنکھ اشکبار تھی۔ بجارانی شہید نے بروز شہادت شکارپور میں بھی درس قرآن دیا تھا اور امیر ضلع شکارپور عبدالسمیع بھٹی کے مطابق ان کا یہ درس اپنے سوز اور اثر کی بنا پر یادگار اور بے مثال تھا۔ بجارانی شہید علامہ اقبالؔ کے شعر

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہے تو فولاد ہے مومن

سچ تو یہ ہے کہ ان کی دائمی جدائی کا صدمہ صرف تحریک اسلامی کے وابستگان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہر طبقہ فکر اور ہر نظریہ کے افراد نے اس کا بہت گہرا اثر لیا ہے، یہاں تک کہ ان کی وفات پر ضلع جیکب آباد، کندھ کوٹ، کشمور اور کرم پور کی ہندو اور سکھ برادری نے بھی اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ کیوں کہ شہید بلاتخصیص رنگ، نسل، مذہب اور زبان ہر ایک کے دکھ درد اور خوشی میں بروقت شرکت کی پوری سعی کیا کرتے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں تحریک اسلامی کی مطلوبہ ’’مرجمع خلائق‘‘ شخصیت کی خوبیوں اور اوصاف کے حامل تھے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ جس دن شہید کی نماز جنازہ تھی راقم اس میں شرکت کے لیے نمائندہ ’’جسارت‘‘ انجینئر اعجاز احمد میمن کی کار میں موصوف سید عمران، محمد عمر سہاگ کے ہمراہ جیکب آباد سے روانہ ہوئے اور جب ہم نے کافی فاصلہ طے کرلیا تو ٹھل بائی پاس کے مقام پر دوطرفہ ٹریفک معطل تھی، گاڑیوں کی لمبی قطار دونوں اطراف کھڑی تھی اور بہت سارے لوگ دھرنا دیے بیٹھے تھے۔ ٹریفک کو رْکا دیکھ کر ہم بھی اپنی گاڑی سے نیچے اْتر آئے۔ انجینئر اعجاز میمن کی رگ صحافت اس موقع پر پھڑک اٹھی تھی جو فوراً احتجاج کرنے والوں کے پاس پہنچ گئے اور ان سے سڑک بلاک کرنے کی وجہ معلوم کی تو پتا چلا کہ رات مقامی پولیس چوکی میں موجود پولیس یونیفارم پہنے مبینہ ڈاکوئوں نے شاید ایک یا دو افراد کو اغوا کرلیا تھا جن کی بازیابی کے لیے یہ سارا احتجاج ہورہا تھا۔ تب یہ صورت حال دیکھ کر ہمیں شہید کی نماز جنازہ میں شرکت کیے بغیر ہی بے نیل مرام واپس لوٹنا پڑا اور دوسرے دن ہم نے شہید کے گائوں جا کر ان کے برادر خورد سابق امیر ضلع امداد اللہ بجارانی اور شہید کے صاحبزادے انیس احمد بجارانی سے تعزیت کی۔

شہید بجارانی کی دل پزیر یادوں کا مشک بار تذکرہ ہنوز جاری ہے، ان کی کمی تاحال بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔ دوست، احباب اور تحریکی ساتھی بھی ابھی تک ان کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے۔ اس کی ایک وجہ شہید کا وہ اخلاص اور مروت تھی جس نے سب کے دلوں کو موہ لیا تھا۔ ورنہ کون بھلا کسی کو یوں یاد کیا کرتا ہے۔ شہید نے اپنی دعوتی سرگرمیوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو تحریک سے قریب ترین کردیا تھا۔ وہ مقامی ظالم و جابر وڈیروں، پولیس اور نوکر شاہی کے ستم اور قہر سامانیوں کے خلاف بلاشبہ اہل علاقہ اور عوام کی ایک توانا آواز اور بلند آہنگ کے حامل بے باک اور نڈر ترجمان تھے۔ شہید بجارانی کی یاد میں کندھ کوٹ، کشمور اور ضلع شکارپور کے تحریکی ساتھیوں نے تعزیتی تقریبات کا انعقاد کرکے سبقت لے لی تھی تو ایسے میں جماعت اسلامی ضلع جیکب آباد کے جواں سال، متحرک اور فعال امیر ضلع دیدار علی لاشاری بھلا کب کسی سے پیچھے رہنے والے تھے۔ جنہوں نے اپنی جوش اور جذبہ سے معمور ٹیم کے ہمراہ 3 مئی کو پاکیزہ ہال جیکب آباد میں شہید بجارانی کی یادوں کو تازہ کرنے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کی خاطر ایک بے حد پروقار، سادہ اور متاثر کن تعزیتی تقریب کا انعقاد کیا۔ جس میں شرکت کے لیے شہید کے چاہنے والے سندھ اور بلوچستان کے دور دراز مقامات سے بھی کھینچے چلے آئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریب شروع ہونے سے پیش تر ہی سارا ہال کھچا کھچ بھر چکا تھا اور اس میں یہی لگتا تھا شاید اب تل دھرنے کی جگہ بھی باقی نہیں رہے گی۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے جناب لیاقت بلوچ مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی خصوصی طور پر لاہور سے تشریف لائے تھے۔ ہر طبقہ فکر سے وابستہ افراد اور نمایاں شخصیت نے اس تقریب میں کثیر تعداد میں شرکت کی۔

تقریب سے دوران خطاب جناب لیاقت بلوچ نے کہا کہ ماہ رمضان میں تحریکی سرگرمیوں کے دوران عبدالحفیظ بجارانی کی شہادت اس امر کی گواہی ہے کہ شہید اپنے مشن اور مقصد میں کس قدر مخلص اور سچے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اقامت دین کے لیے وقف کردی تھی، وہ رب کی رضا کے حصول کے لیے وطن عزیز میں دین اسلام کے عملی نفاذکے لیے تادم آخر متحرک اور سرگرم رہے۔ ان کے مشن کو آگے بڑھانا اور اسے تقویت دینا ضلعی جماعت اور ان کے خاندان کی اولین ذمے داری ہے۔

اس موقع پر انہوں نے شہید کی حیات اور خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے ان کی بلندی درجات کے لیے بھی دعا کی۔ اس دوران انہوں نے وطن عزیز کی سیاسی صورت حال، عوام کو درپیش مسائل، ملک اور قوم کو درپیش خطرات، اسٹیبلشمنٹ، گندم کے بحران، حکومت کی نااہلی اور معیشت کی زبوں حالی، بدامنی سے متعلق بھی خرد افروز اظہار خیال کیا۔ تعزیتی تقریب سے شہید کے بھائی امداد اللہ بجارانی، صاحب زادے انیس احمد بجارانی، صوبائی نائب امرا پروفیسر نظام الدین، حزب اللہ جکھرو میمن، ممتاز حسین سہتو، حافظ نصیر اللہ عزیز چنا، نائب قیم امیر ضلع حاجی دیدار لاشاری، چیمبر آف کامرس کے صدر علی احمد بروہی، پرائمری اساتذہ کے سابق صوبائی صدر انتظار چھلگری، شہری اتحاد کے غلام نبی رند، عالم کھوسو، وکیل رہنما عبدالحئی سومرو سمیت دیگر سیاسی، سماجی اور سول سوسائٹی کے رہنمائوں نے بھی خطاب کیا اور شہید کی دینی، سیاسی اور سماجی خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کیا۔