سفر مشکل تو ہمیشہ ہی لگتا ہے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ اگر کوئی صحت کا مسئلہ بھی درپیش ہو تو پھر کہیں جانے سے پہلے بندے کو ہزار دفعہ سوچنا پڑتا ہے۔ بچوں کی خواہش تھی کہ میں اور بیگم صاحبہ دونوں یوکے آئیں اور کچھ وقت ان کے ساتھ رہیں۔ ہماری تیسری پیڑھی کے پھولوں (نواسے اور پوتی) سے ملنے کی خواہش نے سفر انگلستان پر آمادہ کر ہی لیا۔ میں نے، بیگم نے اور سب سے چھوٹے بیٹے نے ویزے کی درخواست دی جو قبول ہوئی اور ویزے لگ کر آ گئے۔ رمضان المبارک کے بعد 23 اپریل 2024 کو کراچی سے براستہ دبئی برمنگھم جانے کا پروگرام بنا۔
سخت افسوس ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں ہماری قومی ائر لائن پی آئی اے دنیا کی بہترین ائر لائنز میں شمار ہوتی تھی۔ بھٹو کے دور میں سیاسی بنیادوں پر نا اہل بھرتیوں نے پی آئی اے سمیت ہر ادارے کو تباہ کردیا۔ بھٹو کے بعد آنے والے ہر حکمران نے اس ائر لائن کی تباہی میں اپنا حصہ ڈالا۔ آج اپنی ائر لائن کی حالت اتنی پتلی ہے کہ اس پر سفر کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ مجبوری کی حالت میں ایمریٹس سے سفر کا فیصلہ ہوا۔ دبئی ائرپورٹ کا تین گھنٹے کا قیام سخت پریشان کن رہا۔ ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل تک پہنچنا بہت پیچیدہ اور تکلیف دہ عمل ہے۔ بہر طور ہم برمنگھم پہنچ گئے۔ امیگریشن عملے میں ہمارا واسطہ انگریز افسر سے پڑا۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ایمیگریشن کے غیر انگریز افسر معاون نہیں ہوتے۔ اس کا تجربہ مجھے فرانس کے پیرس ائرپورٹ پر ہوچکا ہے۔ الحمدللہ بلا کسی پریشانی چند منٹ میں ہمارا امیگریشن کا مرحلہ مکمل ہو گیا۔ برمنگھم ائر پورٹ پہنچ کر پتا چلا کہ یہاں سامان کی ٹرالی مفت ہاتھ نہیں آئے گی۔ اس کے حصول کے لیے ایک پاؤنڈ کا سکہ درکار ہے۔ ہمارے پاس پاؤنڈ تو تھے مگر بڑے نوٹوں کی شکل میں۔ یہاں سکہ حاصل کرنا بھی آسان کام نہیں تھا۔ یہ تو بھلا ہو ائرپورٹ پر موجود ایک سکھ بھائی کا کہ ’’ہم زبانی‘‘ کی لاج رکھتے ہوئے اس نے مفت ٹرالی کا انتظام کردیا۔
آج مجھے یہاں آئے دو تین ہفتے سے زیادہ ہوچکا ہے۔ مئی شروع ہوچکا ہے اور سردی جانے پر رضا مند نہیں۔ رات بھر بارش کی کن من جاری رہی۔ صبح کچھ دھوپ نکلی تو پتا چلا کہ سورج کا یہاں بھی وجود ہے۔ کراچی میں دن دہاڑے ہمارے پسینے نکال دینے والا سورج پتا نہیں یہاں کس کے ڈر سے چھپا رہتا ہے۔ ہر جگہ کا اپنا موسم، اپنے درخت اپنی فصلیں، اپنے پھل، اپنا مزاج، اپنی چال ڈھال اور اپنا ماحول ہے۔ سو یہاں انگریزوں کے دیس کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ انسانی مزاج کا موسم سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ہمارے گرم موسم ہمارے مزاج کو گرم رکھتے ہیں۔ انگلینڈ کے ٹھنڈے موسم انگریزوں کے مزاج کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔ ’’شرابے‘‘ سے تو نہیں مگر شور شرابے سے ان کی شناسائی نہیں ہے۔ دھیمے لہجے ان کی پراپرٹی ہیں۔ آس پڑوس یا گلی محلے میں نہ کسی کے بولنے کی آواز آتی ہے نہ ٹی وی کی اور نہ ہی گانے بجانے کی۔ حتی کہ میاں بیوی کے جھگڑے بھی شاید واٹس ایپ کے ذریعے ہی ہوتے ہیں۔
صبح کی واک یعنی چہل قدمی کے بارے پہلے دن ہی سے سوچ رہا ہوں مگر کچھ وجوہات کی بنا پر نہیں جا سکا۔ یہاں کی صاف ستھری سڑکیں، گلیاں، محلے، بازار اور پارکس اور قوانین اور خاص طور پر ٹریفک قوانین کی پابندی دیکھ کر سوچتا ہوں کہ پتا نہیں ہم کب انسان بنیں گے۔ کیا ہمارا انسانیت سے کوئی واسطہ ہے بھی یا نہیں!
یہاں کے نلکوں میں پانی، چولھوں میں گیس اور تاروں میں بجلی ہر وقت موجود رہتی ہے۔ یہاں نہ ٹینکر مافیا، نہ سلینڈر مافیا اور نہ آئی پی پیز مافیا۔ آزادی مانگنے کی انگریزوں نے ہمیں اتنی بڑی سزا دی کہ ہم پر لٹیرے جرنیل، لٹیرے سیاست ڈان اور فرعون صفت بیوروکیٹس مسلط کر گئے۔ سنا ہے فرعون نے بھی مصر کو چھوڑ کر یوکے کو مستقل ٹھکانہ بنا لیا ہے۔ یوکے کی خوبیوں کی وجہ سے ہی شاید فرعون نے اپنا مصر چھوڑ کر لندن میں پڑاؤ ڈال دیا ہے۔ کچھ دنوں میں لندن جانے کا پروگرام ہے۔ ان شاء اللہ فرعون سے بھی ملاقات ہوگی۔
میری بیٹی اور داماد دونوں کا تعلق آئی ٹی کے شعبے سے ہے۔ بیٹا اور بہو دونوں ڈینٹسٹ ہیں۔ الحمد للہ دونوں گھرانے خوش اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ کاش میرا خوبصورت ملک بدصورت حکمرانوں کے تسلط میں نہ ہوتا کہ میرے بچے اپنے ہی ملک میں اپنوں کے درمیان خوش اور مطمئن زندگی گزارتے اور اپنی قوم اور ملک کی خدمت کرتے۔ یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ قانون ہے بھی اور قانون کی حکمرانی بھی ہے۔ پتا نہیں ان انگریزوں نے ہمارے جیسے قانون دشمنوں کے ساتھ سو ڈیڑھ سو سال کیسے گزارہ کرلیا۔ وہ تو بھلا ہو (یا برا ہو) دوسری جنگ عظیم کا کہ اس نے انگریزوں کو برصغیر سے نکلنے کا بہانہ مہیا کردیا۔
یہاں دوکان ہے تو سارا سامان دوکان کے اندر ہی رہتا ہے فٹ پاتھ پر نہیں۔ ہمارے دوکاندار جب تک فٹ پاتھ اور آدھی سڑک نہ گھیر لیں ان کو چین ہی نہیں آتا۔ صاف ستھرے مالز کے اندر صاف ستھری دوکانیں اور ان دوکانوں کے اندر گورے، کالے، سانولے، گندمی مسکراتے تمیزدار سیلز مین اپنے وطن کے ماحول کی تلخ یادیں دماغ میں لے آتے ہیں۔ شہر کی دیواروں کو سیاسی، سماجی، طبی، تعلیمی اور جادو ٹونے کے اشتہارات سے خالی دیکھ کر لگتا ہے ان کو دیواروں کے کسی موثر استعمال کا علم ہی نہیں۔ کھمبے کہیں نظر نہیں آتے کہ ان پر سیاست دانوں کی تصویریں اور پارٹیوں کے بینر لگے ہوں۔ ابھی دو دن پہلے یہاں بلدیاتی الیکشن ہوئے ہیں۔ کسی دیوار کسی کھمبے اور کسی عمارت پر کوئی جھنڈا نظر آیا نہ بینر۔ الیکشن مہم چلی تو ہوگی لیکن نہ کوئی جلسہ نہ جلوس۔ یہاں کا ووٹ نعروں اور کھوکھلے وعدوں دعووں کی بنیاد پر نہیں کارکردگی اور وعدوں کی تکمیل کی بنیاد پر ملتا ہے۔ میرے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ صادق خان تیسری دفعہ لندن کا میئر منتخب ہوگیا ہے۔ مطلب کہ یہاں کے مسلمان سیاست دان بھی جھوٹے جذباتی وعدے نہیں کرتے، کام کرتے ہیں۔ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ لیتے ہیں۔ کاش ہمارے سیاہ ست ڈان بھی صادق خان اور اسکاٹ لینڈ کے حمزہ یوسف جیسے لوگوں سے کچھ سیکھ لیں کہ وہ بھی فارم 47 اور اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھی سے نجات پاسکیں اور ہم بحیثیت قوم دنیا میں عزت واحترام کا مقام حاصل کرسکیں۔