اس وقت ملک سیاسی، معاشی بحران میں مبتلا ہوتا جارہا ہے موجودہ حکومت اس بات کو سمجھ گئی ہے کہ ان کے لیے حکومت کی مدت پوری کرنا یقینا ایک معجزہ ہی ہوسکتا ہے اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کا تختہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریکوں کے ذریعے اُلٹ جائے گا تو شاید یہ ممکن نہ ہوسکے کیوں کہ تحریک انصاف کے اندر عہدوں کی جنگ ایسا ممکن نہیں ہونے دے گی۔ بانی تحریک انصاف اس وقت خود بھی کسی جانب سے مطمئن نظر نہیں آرہے ایک جانب خان صاحب کا موقف ہے کہ سیاست میں اداروں کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی تو دوسری جانب تحریک انصاف کے ذرائع بتارہے ہیں کہ وہ افواج پاکستان کے سوا کسی سیاسی جماعت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ یعنی خان صاحب خود سیاست میں اداروں کو مداخلت کو دعوت دے رہے ہیں یہ ہماری سیاست کا المیہ رہا ہے کہ جب بھی کسی جماعت پر سیاسی زوال آتا ہے وہ اداروں کی دہلیز پر کھڑی ہوجاتی ہے اور ان سے مدد کی اپیل کرتی ہے اور بعد میں ان ہی اداروں کو ان کی آئینی حدود کا درس دیتی ہیں۔
اس وقت بانی پی ٹی آئی کی رہائی ایک ایسا سنگین مسئلہ بنا دیا گیا ہے جس نے ملک کو عوامی مسائل کے حل سے دور لے جا کر کھڑا کر دیا ہے عدالتیں کسی نتیجے پر پہنچتی دکھائی نہیں دے رہیں یہ ایک الگ بحث ہے کہ خان صاحب کو درست یا غلط سزائیں دی گئی ہیں مگر یہ پاکستان کی عدالتوں پر سوالیہ نشان ہے کہ اگران سزائوں کو کالعدم قرار دے دیا جائے تو پھر ہماری عدالتوں کا معیار انصاف کیوں اتنا کمزور ہے کہ جب چاہے عدالتیں سیاستدانوں کو بڑی بڑی سزائیں سنا دیتی ہیں اور جب چاہتی ہیں ان ہی سزائوں کو معاف کر کے سیاستدانوں کو ریلیف فراہم کردیتی ہیں یعنی یہ کیسا انصاف ہے کہ جب چاہا سزا سنا دی اور جب چاہا باعزت بری کر دیا جائے۔ ماضی میں ن لیگ کی قیادت کو سنگین الزامات پر سزائیں سنائی گئیں ان کی سیاسی ساکھ کو داغ دار کیا گیا اور پھر نظریہ ضرورت کی آڑ میں ان کو ریلیف دے دیا گیا بالکل ایسا ہی آج خان صاحب کے ساتھ بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
خان صاحب جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے یہ فرما رہے ہیں کہ میں تو بہت دیر سے بول رہا ہوں کہ بات چیت ہونی چاہے مگر کس سے؟ کیوں کہ خان صاحب ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت سے بات چیت کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں تو پھر خان صاحب کس کو ڈیل کے لیے پکار رہے ہیں یہ ہماری سیاست کا وہ بد ترین لمحہ ہے جہاں جمہوریت دفن کر دی جاتی ہے اور ذاتی سیاسی مفادات جنم لینا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر بعد میں ہم ان تمام چیزوں کا ذمے دار ملک کے اداروں کو ٹھیراتے ہیں اس وقت ملک سنگین مسائل سے دوچار ہے، بانی تحریک انصاف کی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس وقت سینئر قیادت میں عہدوں کی جنگ چھڑ چکی ہے چند ذرائع یہ بھی انکشاف کر رہے ہیں کہ خان کی رہائی ان کی اپنی جماعت کے سینئر حضرات کے لیے کوئی اہم ترین محاذ نہیں ہے کیوں کہ یہ سب جانتے ہیں کہ خان کی رہائی صرف ایک حکم کی محتاج ہے جب بھی وہ حکم ہوگا خان بغیر کسی مزاحمت کا آزاد ہوجائے گا اس لیے موجودہ پارلیمنٹ میں موجود تحریک انصاف کی سینئر قیادت کے کھل کر اختلافات سامنے آرہے ہیں۔ شبلی فراز اور عمر ایوب مختلف معاملات پر ن لیگ کی قیادت سے مکمل رابطے میں ہیں جس کی تصدیق شیر افضل مروت بھی کر چکے ہیں دوسری جانب KPK کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اپنی حکومت کو محفوظ بنانے کے لیے بڑی ہی سمجھ داری سے سیاسی بیان داغ رہے ہیں یقینا تحریک انصاف کے نظریاتی لوگ خان کی رہائی کو ممکن ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ چند ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ خان صاحب کا اس وقت جیل سے باہر آنا ممکن نہیں اس لیے یہ لوگ کسی بھی سیاسی تصادم کے حق میں نہیں ہیں۔ خود ذاتی حیثیت میں خان بھی عدالتوں سے فوری ریلیف نہ ملنے سے آگاہ ہیں اور کسی دنیاوی معجزے کے منتظر دکھائی دیتے ہیں احتجاجی تحریک یقینا اس وقت شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ملک میں سیاسی آزادی ہونی چاہے پُرامن احتجاج کرنا ہم سب کا آئینی حق ہے مگر ساتھ ہی ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہے کہ اس وقت ملک کس بحران سے گزار رہا ہے ہمیشہ سے سیاسی جماعتوں نے اپنے ذاتی مفادات میں ملک و قوم کی ترقی وخوشحالی کو سیاسی انتشار کی بھینٹ چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس سے جمہوریت تو کمزور نہیں ہوئی البتہ ملک اور اس میں بسنے والی عوام کو اپنے مسائل قربان کرنے پڑے ہیں یقینا آج بھی وطن عزیز سیاسی معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے اور چند انتشار پسند اس کا ذاتی فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں ہیں دوسری جانب بانی تحریک انصاف کی رہائی کو ایک ایسا مسئلہ بنا دیا گیا ہے جس سے ملک و قوم کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہونا اگر خان صاحب ٹھوس شواہد کی بنیاد پر بے گناہ ہیں تو ان کی فوری رہائی کو ممکن بنایا جائے دوسری جانب خان صاحب ذاتی طور پر خود بھی ملک کو پھر کسی سانحہ کی جانب دھکیلنے سے گریز کریں قانونی جنگ کو عدالتی میدان میں لڑے اپنی جماعت میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ پر قابو پانے کی کوشش کریں ایسے لوگوں کو سامنے لائیں جو ملک و قوم کے نظریے کو مقدم سمجھتے ہوں نا کہ ذاتی مفادات میں آپ کی جماعت اور خاص کر ملک و قوم کے لیے نقصان کا باعث ہوں یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں اگر انتشار کا راستہ کسی بھی جانب سے اپنایا گیا تو وہ کسی کے بھی حق میں بہتر نہیں ہوگا۔