وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کا قرضہ ایک ایسا پھندا بن گیا ہے جس سے جان چھڑانا مشکل ہوگیا ہے۔ حالات وواقعات کے پس منظر میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ پھندا عالمی مالیاتی اداروں نے نہیں بلکہ حکمرانوں نے تیار کیا ہے۔ یہاں یہ بات کسی دغدغے کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ یہ قرضہ کس نے لیا ہے؟ کس نے خرچ کیا ہے؟ کہاں خرچ کیا ہے؟ اور اس کا مقصد کیا تھا؟ اور کیا ہے؟
جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہی زیادہ عرصہ برسرِ اقتدار رہی ہیں اور قرضہ بھی یہی لیتی رہی ہیں ستم بالائے ستم یہ کہ جو بھی پارٹی برسرِ اقتدار آتی ہے وہ قوم کو یہ ہی باور کراتی ہے کہ اْس نے عالمی مالیاتی اداروں کا قرض واپس کر دیا ہے حالانکہ اْنہوں نے قرض کی واپسی کے لیے مزید قرض لیا تھا۔ مگر وطنِ عزیز میں ایسا کوئی میگنیزم نہیں جو قرض کے بارے میں احتساب کرے یا استفسار کر سکے کہ جو قرض لیا گیا تھا وہ کہاں ، کیوں اور کیسے خرچ کیا گیا؟
اب یہی سوال وزیر ِ اعظم میاں شہباز شریف سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی جماعت جو برسوں سے حکمرانی کے چسکے لے رہی ہے اْس نے کب اور کتنا قرض لیاہے؟ اور اس قرضے کو کہاں اور کس مقصد کے لیے خرچ کیا گیا؟
پہلے جہاں چند عمر رسیدہ اشخاص اکٹھے ہوتے تھے انگریزوں کی شان میں قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے تھے مگر ان میں کچھ ایسے بزرگ بھی ہوتے تھے جو انگریزوں کی حکمرانی کو غلامی کا طوق قرار دیتے تھے اب یہ حال ہے کہ سب ہی اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ انگریزوں کے فرزند ِ معنوی حکومت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
ان دنوں پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں کی نجکاری کی تیاری کی جارہی ہے شنید ہے کہ اْن کی تعداد پچاس کے لگ بھگ ہے مگر جو قیمت لگائی جارہی ہے وہ انتہائی کم ہے کہنے والوں کا کہنا ہے کہ نجکاری کے ذریعے جو ادارے فروخت کیے جارہے ہیں اس کا مقصد منظورِ نظر لوگوں کو نوازنا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ حکمران طبقے کے ذاتی ادارے منافع کمارہے ہیں اور قومی ادارے خسارے میں جارہے ہیں ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کوئی پوچھنے والا نہیں۔
کچھ عرصہ قبل عمر رسیدہ لوگ نجکاری کی مخالفت کیاکرتے تھے مگر اب روز بروز اس کی حمایت بڑھتی جارہی ہے اْن کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کو حکومت کرنا ہی زیب دیتا ہے۔ تجارت تاجروں کو ہی کرنا چاہیے ایک صاحب نے بجلی کے میٹر کے لیے درخواست دی مگر میٹر کے ساتھ تار نہیں دی گئی اس معاملے میں SDO سے ملاقات کی گئی تو کہا گیا کہ ہم صرف میٹر لگاتے ہیں تار کی ذمے داری صار ف کی ہے استفسار کیاگیا کہ پھر آپ سیکورٹی کے نام پر ہزاروں روپے کیوں لیتے ہیں؟ کیونکہ ڈیمانڈ نوٹس میں واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ میٹر ماہانہ کرایہ پر دیا جارہا ہے اس لیے صارف ہر ماہ اس کا کرایہ دینے کا پابند ہے۔ جواب دیا گیا کہ ہم آپ کے سوال کا جواب دینے کے پابند نہیں۔ آپ عدالت سے رجو ع کر سکتے ہیں۔
اس پس منظر میں یہ سوچ پروان چڑھنے لگی ہے کہ واپڈا کی بھی نجکاری کر دی جائے تو بہتر ہے بعض بزرگ اس معاملے پر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ سیاست دان حکمرانی کے اہل نہیں اس لیے بہتر ہوگا کہ ایوانِ اقتدار ٹھیکے پر دے دیا جائے۔ بجلی کی نجکاری تو نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کی نجکاری تو قصہ پارینا بن چکی ہے۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ بااختیار شخصیات کی نظر میں عدلیہ کی کو توقیر کوئی اہمیت ہی نہیں اور اس خرابی کی وجہ یہی سوچ ہے کیونکہ عدلیہ ہی ایک ایسا ادارہ ہے جو بااختیار طبقے کا احتساب کر سکتا ہے۔
پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو
میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں؟