اے ابن آدم اخبار کی ایک خبر جو اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ پر مشتمل ہے نظر سے گزری تو دل خون کے آنسو رونے لگا، ہمت کرکے قلم اٹھایا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 35 سال سے زائد عمر کی ایک کروڑ خواتین شادیوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ شادی دراصل وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے معاشرہ، قانون اور مذہب مرد و زن کے ازدواجی تعلق کو قبولیت بخشتے ہیں، اس سے معاشرے میں ایک نئے گھرانے کا اضافہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو شناخت اور قانونی تحفظ ملتا ہے۔ نکاح اسلامی معاشرتی نظام کا ایک اہم رکن ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوسکتا ہے کہ رسول پاکؐ نے ارشاد فرمایا۔ نکاح میری سنت ہے اور جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے شادی کو بہت مشکل بنادیا ہے، لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، غریب اُدھار قرض لے کر بیٹی کی شادی کرتا ہے، لڑکوں کو کیریئر بنانے کی فکر ہوتی ہے جس میں اُن کی شادی کی صحیح عمر بیت جاتی ہے۔ دوسری طرف لڑکیوں کو دہرے مسائل کا سامنا ہے کہ عصر حاضر انہیں خود بھی برسر روزگار ہونا پڑتا ہے کیونکہ ان کے والدین کے پاس بیٹی کو جہیز دینے کے لیے لاکھوں روپے نہیں ہوتے، شادی کے ساتھ جو غیر ضروری رسوم ہیں وہ اسلامی معاشرے کا حصہ نہیں ہیں۔ آج اکثر معاشروں نے شادی
کو آسان بنایا ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دکھاوے پر چل رہے ہیں، مغربی معاشرے کو دیکھ لیں وہاں مرد و زن چرچ میں جا کر شادی کرتے ہیں اور اس سے پہلے یا بعد میں ہمیں کوئی رسوم دکھائی نہیں دیتیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت پاکستان اس سلسلے میں باقاعدہ قانون سازی کرے، ماضی میں کھانے پر پابندی لگی کچھ سال چلی پھر بات ون ڈش پر آئی اور قانون منہ دیکھتا رہ گیا۔
آج ایک ایسے نوجوان کا ذکر کرتا ہوں جس کا نام حسین رومی ہے اور اس کی ویلفیئر کا نام ہے الغوثیہ ویلفیئر آرگنائزیشن جس نے آج سے لگ بھگ 20 سال پہلے غریب لڑکیوں کی اجتماعی شادی کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ تقریب نشترپارک میں منعقد کی جاتی تھی۔ ارباب غلام رحیم جس وقت وزیراعلیٰ تھے اس وقت میں نے یہ پُروقار تقریب خود اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ حسین رومی نے 5 جوڑوں کی اجتماعی شادی سے یہ سلسلہ شروع کیا جو 50 جوڑوں تک جا پہنچا میں حیران ہوگیا تھا کہ اتنے بڑے اجتماع کو الغوثیہ کے کارکن کس طرح سے لے کر چلتے تھے، گھوڑوں کی بگھی میں جوڑے نشترپارک میں داخل ہوتے، 3 سے 5 ہزار لوگ تقریب میں موجود ہوتے، ہر غریب جوڑے کو جو جہیز دیا جاتا وہ وہاں نشتر پارک میں رکھا ہوا ہوتا۔ بیڈ روم سیٹ، کپڑے، برتن، چادریں، کمبل، لحاف، یعنی ضرورت کی ہر چیز جہیز میں موجود ہوتی تھی۔ شہر کراچی کے مخیر حضرات رومی کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے کیونکہ اس کی ہمیشہ سے نیت صاف رہی ہے، اپنی جیب سے اس کار خیر کی رومی نے ابتدا کی پھر جب مخیر حضرات نے ان کا عملی کام دیکھا تو ان کے کاروان میں شامل ہوگئے پھر COVID آیا اور یہ نیک کام عارضی طور پر روک گیا مگر چند دن پہلے حسین رومی نے کراچی عیدملن کا بڑا پروگرام مقامی ہال میں منعقد کیا جس میں مجھ سمیت سیاسی، سماجی، صحافتی اور آرٹسٹوں سمیت دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ اپنی تقریر میں حسین رومی نے اعلان کیا کہ جلد غریب جوڑوں کی اجتماعی شادی کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں تا کہ غریب عوام کی معاشی مدد ہوسکے۔ 6 مئی 2024ء کو روزنامہ جسارت میں میرا کالم ’’جہیز اور غیر ضروری رسوم‘‘ شائع ہوا جب اُس کو فیس بک پر لگایا تو بے شمار لوگوں نے نہ صرف پسند کیا بلکہ رائے بھی دی۔ جاوید صاحب جو جماعت اسلامی کے کارکن ہیں اور اورنگی ٹائون میں رہائش پزیر ہیں کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ اس کو تحریک کی شکل دیں۔
ہم آپ کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ لاہور سے احمد بھائی نے لکھا کہ میں نے حال ہی میں آپ کے فکر و فلسفہ پر اپنے بیٹے کی شادی سادگی سے کی ہم لاہور سے کراچی اورنگی کے علاقے سے بہو لے کر گئے بغیر جہیز کے اور لاہور سے صرف ہم 3 لوگ کراچی آئے۔ میں، میری بیگم اور میرا بیٹا جس کی شادی تھی۔ جمعہ کی نماز کے بعد مسجد میں نکاح ہوا پھر اُسی دن ہم بہو کو لے کر لاہور روانہ ہوگئے، وہاں جا کر ہم نے ولیمہ کیا، انہوں نے مجھ سے آخر میں سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ اپنے فکر و فلسفے سے کتنے پرامید ہیں۔ میں نے لکھا کہ میں ایک معاشرتی جہاد کررہا ہوں نکاح کو آسان بنانے کی بات کرتا ہوں، غیر ضروری رسوم جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ان کے خلاف ہوں، آپ نے بیٹے کی سادگی سے شادی کرکے ثابت کردیا کہ جو دیا میں نے جلایا ہے اس کی روشنی پھیل رہی ہے اور جو لوگ اللہ کی ذات سے امید رکھتے ہیں وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ ایک بات والدین کے لیے خوب سے خوب تر کی تلاش میں بیٹی کی شادی کی عمر کو نکلنے نہ دیں، معقول اور اچھا خاندان دیکھ کر بیٹی کو رخصت کردیں اور میری بیٹیوں تم Ideal کے چکر میں نہیں پڑو کہ سلمان خان اور شاہ رخ خان جیسا شوہر ملے گا تو ہاں کروں گی یہ غلطی ہر گز نہ
کرو، شادی نصیب کا کھیل ہے جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں، مجھے اپنی جوانی کا وقت یاد ہے میں شروع سے Co-education میں پڑھا تھا جس وقت والد لڑکی تلاش کررہے تھے میری شادی کے لیے تو مجھ سے ہمیشہ ایک سوال کرتے اگر تم کو کوئی لڑکی پسند ہے تو بتائو تو میں ہمیشہ ایک جواب دیتا کہ یہ ڈیوٹی اللہ نے آپ کو دی ہے آج میری شادی کو 37 سال ہوگئے اللہ نے اچھی شریک حیات عطا کی، خدمت گزار، 5 بچے عطا کیے، پوتے، پوتی، نواسے جیسی نعمتوں سے مالا مال کیا۔ یہ اس لیے بتایا کہ والدین کا اولاد کے لیے کیا گیا فیصلہ اچھا ہوتا ہے اور جو بچے اپنی پسند سے شادی کرتے ہیں زیادہ تر کا رزلٹ اچھا نہیں ہوتا۔ ایسی بے شمار مثالیں معاشرے میں موجود ہیں، لہٰذا آج سے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں، جہیز کی لعنت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں، اس کے بعد اگر آپ نے کرپشن سے پاک پاکستان دیکھنا ہے تو جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔ جماعت اسلامی میں جلد بڑی تبدیلی نظر آنے والی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن ملک کی ایک ایک اکائی سے واقف ہیں، آپ کے مسائل پر اگر کوئی آواز حق بلند کرتا ہے، کراچی والوں کو جگانے کی کوشش کرتا ہے، اگر اب بھی کراچی والے اپنے مسائل کے حل کے لیے نہیں جاگے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے اور ایک اہم بات کہ جس دن جماعت اسلامی کو اقتدار ملا تو جو میں برسوں سے لکھ رہا ہوں وہ سچ ثابت ہوگا۔ جہیز پر پابندی اور کھانے کے اسراف پر صرف جماعت اسلامی پابندی لگوا سکتی ہے پاکستان زندہ باد۔