باوضو قوم اپنا قبلہ درست کرے

1082

ایک زمانہ تھا جب میں کراچی میں ایف ایس سی کررہا تھا غالباً 1982-83 کا سال تھا میری رہائش اپنے بھائی جمیل شیرازی کے ساتھ کراچی لسبیلہ کے علاقہ میں تھی ہم کبھی کبھی اپنے خالہ زاد بھائی مولانا سید صابر حسین شاہ کے ہاں چلے جاتے لیکن رمضان المبارک میں تراویح خاص طور پر ان کی مسجد جو کراچی دائود انجینئرنگ کالج کے پاس تھی وہاں پڑھتے۔ ان دنوں وہاں ایک ڈاکٹر صاحب تراویح میں قرآن مجید سنایا کرتے تھے میں دل ہی دل میں دعا کرتا کہ اے اللہ ہم سے بھی کچھ دین کا کام لے لے۔ زندگی میں بعض گھڑیاں دعائوں کی قبولیت کی ہوتی ہیں۔ میں نے کراچی لیاری کالج سے ایف ایس سی کیا پھر ایک سال اسلام آباد اسلامک یونیورسٹی اور کچھ وقت منصورہ لاہور میں گزارکر پھر کراچی ایس ایم سائنس کالج چلا گیا اور وہاں سے بی ایس سی کی تعلیم مکمل کی اور پھر لاہور منصورہ آگیا۔ والد محترم کے علمی کام کو منظرعام پر لایا اور ساتھ ساتھ منصورہ لاہور سے درس نظامی کی 8 سالہ تعلیم بھی حاصل کی اس دوران پہلے کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ میں رہا اور بعد ازاں لاہور میں جمعیت طلبہ عربیہ میں کام کرتا رہا اور تنظیم میں منتظم اعلیٰ پاکستان کی حیثیت سے 3 سال تک ذمے داریاں ادا کیں اور ساتھ ہی اپنا پبلی کیشن کا ادارہ بنایا جو ادارہ منشورات اسلامی کے نام سے چلتا رہا۔ بعد ازاں والد محترم سید معروف شاہ شیرازی مرحوم نے ظلال القرآن فائونڈیشن کے حق میں اس کو وقف کر دیا۔ کراچی میں دوران تعلیم ایک خواب دو بار دیکھا، لسبیلہ کے قریب جہاں ہماری رہائش تھی اس کے قریب ایک مسجد تھی ایک دین میں مسجد میں نماز کے لیے جاتا ہوں مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہے لوگ وضو کر کے آتے گئے اور نماز میں شریک ہوتے جارہے ہیں لیکن اس میں حیرت کی بات یہ تھی کہ سب کے سب قبلہ کی مخالف سمت میں کھڑے ہیں، میں سب کو پکڑکر بتاتا ہوں کہ قبلہ مشرق کی طرف نہیں مغرب کی طرف ہے لیکن میں نے دیکھا کہ لوگ اسی طرح مخالف سمت میں نماز پڑھتے چلے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں نے آج کے اس مضمون کا عنوان یہی رکھا ہے کہ باوضو قوم اپنا قبلہ درست کرے۔ باقی اس خواب کی تعبیر آپ خود بھی کر سکتے ہیں یا خصوصاً آپ جس مقام پر بیٹھے کام، بزنس یا سروس کررہے ہیں آپ خود دیکھیں کہ ادراہ کس مقصد کے لیے بنا سب ورکرز موجود ہیں لیکن ہم سب اصل مقصد کی طرف کتنا متوجہ ہیں یہ آپ اور ہم سب کو سوچنا ہے؟؟ نبیؐ نے ایک حدیث شریف میں فرمایا کہ قیامت والے دن میں اپنی اْمت کو وْضو کے اعضاء کے چمکنے سے پہچانوں گا۔ لہٰذا تم اپنے وضو کے اعضا کو بار بار دھو تاکہ اس سے چمک اور زیادہ ہوجائے، اس سے پہلے بھی انبیاء کی اْمتیں وْضو کرتی اور نماز پڑھتی تھیں لیکن یہ خصوصیت صرف اْمت محمدؐ کو حاصل ہے کہ محشر کے میدان میں وْضو کی وجہ سے ان کے اعضاء چمک رہے ہوں گے۔
دراصل یہ تمہید اس لیے بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ملک ہمیں بطور امانت دیا ہے
خزانوں سے بھر کر دیا ہے زرعی زمین سونا اگلنے والی، نہری نظام رکھنے والا بلکہ جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی، پنجاب میں 5 دریا اور نیلم جہلم، دریا کابل اور سندھ، گلیشیر کے پہاڑ، دنیا کی عظیم چوٹیاں اور دوسری طرف دنیا کے بڑے صحرا ہمارے پاس ہیں، 365 میں سے 265 دن سال میں چمکتا سورج چار موسموں کے ساتھ، دنیا کی بہترین وِنڈ کوریڈور جہاں پنکھے اور ٹربائین لگائیں اور بجلی پیدا کریں، سونا، تانبا، کوئلہ، گیس، پٹرول اور لوہے سے مالا مال ملک، 65فی صد نوجوان قوم اللہ اور اس کے رسولؐ اور قبلہ اوّل اور حرمین شریفین پر مرمٹنے والی قوم، دنیا میں سب سے زیادہ چیریٹی کرنے والی قوم، جذبہ جہاد رکھنے والی اور اْمت کا درد رکھنے والی قوم، ملک میں حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرنے والی قوم، قادیانیوں کو دستوراً کافر قرار دینے والی قوم اور وہ قوم جس کے 98فی صد عوام ملک میں اللہ کے دین کو غالب دیکھنا چاہتے ہیں، اتنی نعمتوں کے باوجود آج ہم فقر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں آج ہماری معیشت تنگ ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں تلے دب چکے ہیں، تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ آج ہم دست و گریباں ہیں، کوئی پڑوسی اسلامی ملک ہمیں معاشی سہارا دینے کے لیے تیار نہیںہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ کیا ہمارا قبلہ درست ہے ہم مقدس سرزمین پر زندہ ہیں اس کو کھا رہے ہیں، باوْضو ہوکر مسجد میں کھڑے ہیںکی ہمیں اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے یا 75 سال بعد بھی اُسی سابقہ ڈگر پر چلنا ہے۔
سوچیے آج کا جمہوری پاکستان کتنا زخمی ہے اسلام اور جمہوریت کے ساتھ ہمارے ججوں اور جرنیلوں، سیاستدانوں اور میڈیا اینکرز نے کیا کچھ کر دیا ہے پہلے تو ملک میں یہ سب کچھ خاموشی سے خْفیہ انداز میں ہوتا تھا لیکن 8 فروری 2024ء کے الیکشن میں کیا کچھ ہوا یا اس سے پہلے 2 سال کیا ہوتا رہا، آج ہمارے ادارے اور اْن کی عمارتیں تو کھڑی ہیں ملک میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹس کی عمارتیں تو کھڑی ہیں، ملک میں الیکشن کمیشن موجود ہے، ملک میں پولیس، بیوروکریسی، خفیہ ایجنسیاں تو موجود ہیں، ملک میں اسکولز؍ کالجز اور یونیورسٹیاں تو موجود ہیں، ملک میں ظاہراً زندگی رواں دواں نظر آتی ہے لیکن کیا ہمارے ادارے اور ان کے سربراہان و کارندوں میں سے کوئی اپنی اخلاقی ساکھ بھی رکھتے ہیں۔ کیا آج فوج، پولیس، ججوں اور سرکاری آفیسران کی کوئی عزت، تکریم باقی رہ گئی ہے۔ کیا ان میں امانت دیانت باقی ہے، کیا فرض شناسی باقی ہے، کیا وہ اپنے منصب کا حق ادا کر رہے ہیں آخر کبھی ہم نے سوچا کہ اس کی وجوہات کیا ہیں کہ آج ملک میں لاقانونیت بہت بڑھ گئی ہے ملک میں اسٹریٹ کرائم بڑھ گئے ہیں ملک میں مافیاز کاراج ہے، ڈرگ، لینڈ اور ٹمبر مافیاز کی پْشتی بانی کون کر رہا ہے، دراصل ملک مارشل لائوں اور سیاسی ڈکٹیٹر شپ پر چلتا رہا ہے جس کی وجہ سے آج کوئی ادارہ اپنا کردار ادا نہیںکر رہا۔ ملک میں حق اور سچ مفقود ہو چکا ہے اس کی جگہ جھوٹ اور مکرو فریب کا دور دورہ ہے۔ یہی وجوہات تھیں کہ ہم نے آدھا ملک بنگلا دیش بنا دیا تو کیا اب ہم بلوچستان کو الگ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔ آئیے ہم سب مل کر اپنا اپنا قبلہ درست کر لیں ہم سب باوْضو مسجد کھڑے ہیں لیکن قبلہ کے مخالف سمت کھڑے ہیں۔
اگر آج ہم سب یہ فیصلہ کر لیںکہ ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہے تو سب سے پہلے عوام کی فکر کریں ان کی معیشت بہت تنگ ہو چکی ہے وہ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوچکے ہیں اْن کے بچوں کی تعلیم، صحت اور روزگار کی فکر کریں، اْن کے بجلی گیس کے بلوں کی فکر کریں، مہنگائی کو کم کرنے کی فکر کریں۔ آج 8 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ان کو اوپر اْٹھانے کی کوشش کریں آج ہمارے ملک سے ایک بڑی تعداد کروڑوں اربوں کے اثاثے بیچ کر بیرون ملک جا چکے ہیں اور ایک بڑی تعداد ملک میں مایوس بیٹھی ہوئی ہے آج کا نوجوان ڈیپریشن کا شکار ہو چکا ہے۔ آج شادی کے بعد چھے ماہ میں طلاق کا رجحان بہت بڑھ چکا ہے، شادی ابھی رجسٹر نہیں ہوتی کہ اس سے پہلے طلاق ہو جاتی ہے۔ ملک میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو شادیوں سے مایوس بیٹھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بے حیائی بہت بڑھ گئی ہے۔ دوسری طرف ہم سب مل کر کوشش کریں کہ ملک میں قانون کی عملداری ہو اس کے لیے لازم ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے امیر اور غریب کے فرق کو ختم کریں امیر اور غریب سب قانون کی نظر میں برابر ہوں۔ قانون کی عملداری میں سب سے پہلے عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پھر فوج، پولیس اور بیوروکریسی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، پھر گلی محلے کے اندر امن کمیٹیاں قائم ہوں پھر ہر گھر اور خاندان خود اپنے گھر میں امن، پیار، محبت، شفقت حقوق و فرائض کی ادائیگی کی فضاء قائم کریں تو پھر ہمارا معاشرہ حسین سے حسین تر ہو سکتا ہے۔ اہل محلہ ایک دوسرے کے غم دکھ درد میں شرکت کریں۔
تیسرے نمبر پر ہمیں نوجوان بچوں اور بچیوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہو گا۔ ان کو اسلامی آداب سیکھنا پڑیں گے۔ ان کی اہمیت کو معاشرے میں نہ صرف اجاگر کرنا ہوگا بلکہ ان کو زندگی گزارنے کے آسان مواقع دینے ہوں گے۔ ان کی سوچ کو قدرکی نگاہ سے دیکھنا ہوگا ان کو امور خانہ داری اور امور مملکت میں شریک مشورہ کرنا ہو گا کئی ممالک آج بھی نوجوانوںکی میٹرک ایف ایس سی کے بعد تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع اور تجارت کے لیے آسان قرضے دیتے ہیں تاکہ تعلیم کی تکمیل سے پہلے پہلے اپنا روزگار جما سکیں۔
چوتھے یہ کہ آج مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے اس لیے ہمارے حکمرانوں کو، اساتذہ کو، افواج کو، دانشوروں کو ایک نکتے پر جمع ہونا پڑے گا اور وہ نکتہ یہ ہے کہ اللہ ہم سب کا خالق ہے۔ رسول اللہؐ اْمت کے آخری پیغمبر ہیں، قرآن ہماری آخری ہدایت اور راہنمائی کی کتاب ہے، پوری دنیا کے انسان صرف دوہی گروہ ہیں ایک گروہ ’’لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ‘‘ کا کلمہ پڑھنے والا جو اس کلمہ کی وجہ سے ’’انما المومنون اخوۃ‘‘ کے مصداق سب آپس میں بھائی بھائی بن جاتے ہیں اور یہی گروہ دنیا و آخرت میں فلاح پانے والا ہے اور دوسرا گر وہ جو دائرہ اسلام سے باہر ہے جس کو نبیؐ نے ’’الکفرملت واحدہ‘‘ قرار دیا ہے وہ ایک قوم اور ایک گروہ ہیں۔ قرآن ان کو ’’حزب الشیطان‘‘ اور ’’اولئک ھم الخاسرون‘‘ کہتا ہے۔ دنیا میں یہی دو گروہ ہیں اور یہ کش مکش ازل سے ابد تک جاری رہے گی۔
پانچویں چیز یہ ہے کہ ہم ملک پاکستان میں تلخی اور الجھائو کا خاتمہ کریں اس میں سیاسی پارٹیاں، فوج، عدلیہ سب دلیل سے بات کریں، نرمی سے بات کریں، حق و سچ بات کریں، ایک دوسرے کو برداشت کریں، ایک دوسرے کے لیے روادری، عزت و تکریم کی فضاء پیدا کریں، ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی پابندی کریں، اپنی بات اور موقف دلیل کی بنیاد پر رکھیں لیکن اس کے پیچھے گروہ بندی اور جتھا بندی ختم کر دیں۔ قوم اور عوام کو جمہوری حق دیں وہ جس کو منتخب کرنا چاہیں اس کو منتخب کریں وہ ڈیلور کرے پانچ سال کے بعد عوام پھر جس کو چاہیں لے آئیں۔ قوم کو بھی چاہیے کہ وہ امانت دار لوگوں کو منتخب کرے اگرکوئی بددیانتی کرے تو قوم اور ادارے اس کا احتساب کریں اب ملک میںسے ظلم کا نظام ختم ہونا چاہیے۔ اگر آج قوم، ادارے اور سیاستدان سب اپنا قبلہ درست کر لیں تو ان شا اللہ اللہ کی رحمت بھی آئے گی اللہ معاف کرنے والا ہے پھر اللہ زمین و آسمان سے خزانے بھی کھول دے گا۔ ملک سے معاشی تنگدستی بھی ختم ہوجائے گے۔ اللہ تعالیٰ اس باوْضو قوم کو اپنا قبلہ درست کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آج ملک میں ایسے ادارے اور جماعتیں موجود ہیں جو امانت و دیانت سے ملک کو چلا سکتی ہیں۔ اللہ ہمیں توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین