آئین کی بالادستی کے لیے متوازی تحریکیں اور گریٹر ڈائیلاگ

536

اِس وقت پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی، جمہوریت کی بحالی اور عوام کے منتخب نمائندوں کی حکومت کے قیام کے لیے تین متوازی تحریکیں چل رہی ہیں۔ سب سے مضبوط اور توانا تحریک مولانا فضل الرحمن کی ہے۔ حضرت مولانا ماضی میں ہمیشہ اقتدار کی سیاست سے وابستہ رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ہو، پیپلز پارٹی ہو یا جنرل پرویز مشرف کی فوجی آمریت ہو۔ حضرت مولانا نے ہر دور میں اپنے حق سے بڑھ کر اقتدار میں اپنا حصہ وصول کیا ہے اور حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملائی ہے۔ موجودہ غیر منتخب اور غیر نمائندہ حکومت کے خلاف جب انہوں نے آواز بلند کی تو عمومی تاثر یہی تھا کہ وہ حکومت میں اپنا شیئر لینے کے لیے دبائو بڑھا رہے ہیں۔ چناں چہ نواز شریف نے انہیں حکومت میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت بھی دے دی۔ دونوں لیڈروں کے درمیان بالمشافہ ملاقات بھی ہوئی لیکن نواز شریف مولانا کو قائل نہ کرسکے۔ بلکہ اس کے برعکس مولانا نے میاں نواز شریف کو جتادیا کہ وہ اِس وقت اسٹیبلشمنٹ کے اسی طرح لاڈلے بنے ہوئے ہیں جس طرح 2018ء میں عمران خان اس کے لاڈلے تھے۔ مولانا یوں تو موجودہ غیر نمائندہ حکومت پر بھی تنقید کررہے ہیں لیکن ان کا اصل ہدف اسٹیبلشمنٹ ہے وہ ناک تاک تاک کر اس پر نشانہ لگارہے ہیں۔ انہوں نے آئی ایس پی آر کے اس بیان کو قطعی مسترد کردیا ہے کہ انتخابات میں فوج کا کردار سیکورٹی فراہم کرنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ مولانا دعوے سے کہتے ہیں کہ انتخابات اگرچہ بظاہر الیکشن کمیشن نے کرائے تھے لیکن اسے نتائج مرتب کرنے کا اختیار نہ تھا۔ نتائج اسٹیبلشمنٹ نے اپنی صوابدید پر مرتب کیے۔ اس نے جسے چاہا جتادیا جسے چاہا ہرادیا اور ووٹوں کی اصل گنتی کو نظر انداز کرکے فارم 47 کے مطابق ریٹرننگ افسروں سے اعلان کروایا گیا جو صریحاً آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے جسے وہ تسلیم نہیں کرتے۔ مولانا کہتے ہیں کہ وہ کسی ادارے کو خواہ وہ فوج ہی کیوں نہ ہو آئین سے بالاتر تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی اسے انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کو اختیار دینے کو تیار ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے برملا کہا کہ اگر عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے ہیں تو حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کریں اور نواز شریف اپوزیشن میں آجائیں۔
آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے دوسری متوازی تحریک پی ٹی آئی چلارہی ہے۔ جو اس وقت سب سے زیادہ متاثرہ جماعت ہے۔ اسے الیکشن سے آئوٹ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے اس کے مقابلے میں ایک مخالف فریق کا کردار ادا کیا۔ اس کی بطور ایک سیاسی جماعت رجسٹریشن منسوخ کردی۔ اس کا انتخابی نشان اس سے چھین لیا، اس کے آزاد امیدواروں کو مضحکہ خیز انتخابی نشانات الاٹ کرکے عوام کو کنفیوژ کرنے کی کوشش کی گئی، چھاپے اور گرفتاریاں بھی ان امیدواروں کا پیچھا کرتی رہیں لیکن پی ٹی آئی کے امیدوار یہ تمام رکاوٹیں عبور کرکے اسمبلیوں میں پہنچنے میں کامیاب رہے۔ تاہم ووٹوں کی اصل گنتی کے بجائے ریٹرننگ افسروں کے جاری کردہ فارم 47 کے تحت پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی بننے سے روک دیا گیا اور حکومت شکست خوردہ جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے حوالے کردی گئی۔ اب پی ٹی آئی اسمبلیوں میں بھی آواز بلند کررہی ہے۔ عدالتوں سے بھی رجوع کررہی ہے اور عوامی سطح پر بھی آواز اٹھا رہی ہے لیکن اس کا زیادہ اصرار اس بات پر رہا ہے کہ وہ موجودہ حکومت سے بات چیت کرنے کے بجائے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بات کرنا چاہتی ہے کیونکہ سارے اختیارات اسی گروہ کے پاس ہیں۔ عمران خان نے اس سلسلے میں ایک تین رکنی مذاکراتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی تھی لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی۔ اب جبکہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملے اور توڑ پھوڑ کے افسوسناک واقعات کو پورا ایک سال گزر چکا ہے تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس دن کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات کے امکان کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو انتشاری ٹولہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ٹولے کو اپنے کیے کی سزا مل کر رہے گی۔ اس میں شبہ نہیں کہ 9 مئی کے افسوسناک واقعات سے پی ٹی آئی کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور تھا لیکن 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی کچھ کم افسوس ناک نہ تھا۔ ملک نے اس سے پہلے بھی فوجی آمریت کے بدترین ادوار دیکھے ہیں لیکن اب کی دفعہ چادر اور چہار دیواری کا تقدس جس بے دردی سے پامال کیا گیا اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ پی ٹی آئی سے وابستہ خواتین کو عدالتوں سے ریلیف ملنے کے باوجود بار بار گرفتار کیا جاتا رہا اور ابھی تک وہ جیلوں میں نظر بند ہیں۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان پر مقدمات کی بھرمار کردی گئی اور انہیں اتنی سزائیں دے دی گئیں کہ وہ ساری عمر بھی جیل میں رہیں تو یہ سزائیں پوری نہیں کرسکتے۔ کیا یہ سب کچھ آئین و قانون کے مطابق تھا؟ آرمی چیف کہتے ہیں کہ انہیں اپنی آئینی حدود کا بخوبی علم ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن اس علم کا عملی مظاہرہ بھی ہونا چاہیے جو نہیں ہورہا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آئین کے مطابق سیاست فوج کے لیے شجر ممنوع کی حیثیت رکھتی ہے لیکن فوجی مقتدرہ گلے گلے تک سیاست میں ڈوبی ہوئی ہے اور ملک کی سب سے طاقتور سیاسی پارٹی کی حیثیت اختیار کرگئی ہے جس کی مرضی کے بغیر سیاسی فضا میں ایک پتا بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ یہ صورت حال ایک جمہوری ملک کے لیے کسی صورت بھی نیک شگون نہیں ہے۔
اس صورت حال کو تبدیل کرنے، ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے اور جمہوری نظام کو بحال کرنے کے لیے تیسری متوازی تحریک جماعت اسلامی چلا رہی ہے اور امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن پوری قوت سے بروئے کار آئے ہیں۔ وہ موجودہ غیر منتخب اور غیر نمائندہ حکومت کو بھی للکار رہے ہیں کہ فارم 47 کی بنیاد پر بننے والی یہ حکومت کسی طرح بھی قوم کو قابل قبول نہیں ہے۔
وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اسے زبانی دعویٰ کرنے کے بجائے عملاً آئینی حدود میں واپس آنا چاہیے کہ اسی میں ملک و قوم کا بھلا ہے۔ حافظ صاحب اس سلسلے میں ’’گریٹر ڈائیلاگ‘‘ کے حق میں ہیں۔ یہ ڈائیلاگ فوجی مقتدرہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور اسے سیاست سے دست کش ہونے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ڈائیلاگ اسٹیبلشمنٹ کی ٹائوٹ سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور انہیں عوامی دبائو کے ذریعے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس سے پہلے ضروری ہے کہ آئین کی بالادستی کے لیے کام کرنے والی تینوں متوازی تحریکوں میں ’’گریٹر ڈائیلاگ‘‘ کے ذریعے تحریک کے اہداف و مقاصد پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے پھر متحد ہو کر اپنے ہدف پر ضرب لگائی جائے۔ ہمیں یاد ہے کہ 1960ء کی دہائی میں جب جنرل ایوب خان کی فوجی آمریت کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا تو مولانا مودودیؒ کی تجویز پر متحدہ اپوزیشن کا قیام عمل میں آیا تھا اور ’’سی او پی‘‘ (کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز) کا نام دیا گیا تھا۔ اس میں مذہبی، لبرل، سیکولر، قوم پرست سب جماعتیں شامل تھیں، ان کی جدوجہد کا ون پوائنٹ ایجنڈا تھا ’’فوجی آمریت‘‘ کا خاتمہ۔ مولانا مودودیؒ پر اس اتحاد میں شمولیت پر اعتراضات بھی ہوئے اور کہا گیا کہ جن جماعتوں کے ساتھ مل کر آپ جدوجہد کررہے ہیں وہ سب ملک میں نفاذِ اسلام کے خلاف ہیں۔ کیا اس طرح آپ کے اصل مشن کو نقصان نہیں پہنچے گا؟ آپ نے ایک مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ جب کسی چوراہے پر کوئی ٹرک یا ٹرالر پھنس جائے تو چاروں طرف کی ٹریفک رُک جاتی ہے، ہر مسافر گاڑی کی اپنی منزل ہوتی ہے لیکن سب کا مشترکہ نفاذ یہ ہوتا ہے کہ ٹرک یا ٹرالر کو چوراہے سے ہٹایا جائے تا کہ سب اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہوسکیں۔ اس وقت شاہراہِ جمہوریت کے چوراہے پر فوجی آمریت کا ٹرک پھنسا ہوا ہے جس نے سب کا راستہ روک رکھا ہے۔ اس لیے سب کا مشترکہ مفاد یہی ہے کہ سب سے پہلے اس ٹرک کو ہٹایا جائے پھر اپنی اپنی منزل کی جانب پیش قدمی کی جائے۔
آج بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں ہے۔ فوجی مقتدرہ نے شاہراہ جمہوریت کو بلاک کر رکھا ہے اسے راستے سے ہٹانے اور سیاست سے لاتعلق کرنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے خلاف کئی متوازی تحریکیں اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ حافظ نعیم الرحمن جس گریٹر ڈائیلاگ کی بات کررہے ہیں اس کا اطلاق سب سے پہلے مشترکہ جدوجہد پر ہونا چاہیے۔