میزانِ عدل (آخری حصِہ)

453

عزتِ مآب جسٹس منصور علی شاہ نے عدالتی نظام کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ عدلیہ کی کارکردگی خوش کْن نہیں جو کہ باعث ِ تشویش ہے اگر اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تشویشناک بھی نہیں کیونکہ کسی بھی ادارے کی کارکردگی خوش کن نہ ہو تو اْسے خوش آئند بنانے کے لیے کارکردگی کو بہتر بنایا جاتا ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ جو جج پرفارم نہیں کرتا اْسے گھر بھیج دینا چاہیے کیونکہ اْسے عدلیہ کا حصہ بنائے رکھنا بد دیانتی کے زمرے میں آتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایسے ججوں کو عدلیہ سے کون نکالے گا؟ جسٹس صاحب کے فرمان کے مطابق 24 لاکھ کیسز زیرِ التوا ہیں اور اس کی بنیادی وجہ جج صاحبان کی کمی ہے۔ پاکستان میں فی ملین آبادی کے لیے13جج ہیں جبکہ دیگر ممالک میں 90جج ہوتے ہیں۔ انصاف میں تاخیر کی وجہ جج اور وکلا دونوں ہی ہیں اس کوتاہی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں ان کے ارشاد کے مطابق ججوں اور وکلا کی کمی کو دور کرنا ضروری ہے۔ برطانیہ میں 203 لوگوں کے لیے ایک وکیل ہے۔ پاکستان میں 1000 لوگوں کے لیے ایک وکیل ہے۔المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بات بات پر ہڑتال کرنا کلچر بن چکا ہے وکلا کی ہڑتال بھی انصاف میں تاخیر کا سبب ہے۔
ہر ادارے میں وقت کے ساتھ اصلاحات کی ضرورت پڑتی ہے مگر اصلاحات سے قبل جج اور وکلا کی کارکردگی کا جائزہ لینا از حد ضروری ہے۔ شایہ دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو جہاں ججوں کا تعین سفارش پر ہوتا ہو یہی معاملہ وکلا کا ہے مگر وطن ِ عزیز میں ججوں کا تعین کے لیے سفارش لازمی ہے اور جعلی وکلا بھی بلا خوف و خطر دندناتے پھر رہے ہیں سو عدالتی اصلاحات کے لیے ججوں اور وکلا کی اصلاح ضروری ہے۔ جن ججوں کی کارکردگی قانون کے خلاف ہو اْنہیں عدلیہ سے وابستہ رہنے کا کوئی حق نہیں اور جو وکلا جعلی اسناد کے حامل ہوں اْنہیں بھی وکالت کرنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے اور جہاں تک ججوں اور وکلا کی کمی کا معاملہ ہے تو غور طلب بات یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں فی ملین ججوں کی تعداد 90 ہے اور پاکستان میں 13 ہے اور اس 13 نے نظامِ عدل کو تیرہ تین کر رکھا ہے انصاف میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ تو اس کی وجہ سے سب ہی واقف ہیں کیونکہ ہماری عدلیہ میں کسی مقدمے کے اندراج کو کوئی طریقہ ِ کار ہی نہیں جس کی جیب میں وکیل کی فیس ہو وہ مقدمہ دائر کر سکتا ہے شایہ ہی دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو جہاں بغیر ثبوت کے مقدمے کی سماعت ہوتی ہو سو، لازم ہے کہ بغیر ثبوت کے کسی مقدمے کی سماعت نہ کی جائے اس موقع پر ہمیں اپنے کلاس فیلو ایڈووکیٹ مجید بھٹی بہت یاد آتے ہیں وہ کہا کرتے تھے کہ بغیر ثبوت کے کسی مقدمے کی سماعت انتہائی مکروہ قانون شکنی ہے کیونکہ کسی جعلی مقدمے کی سماعت کے دوران وکلا قانونی موشگافیوں سے تاخیری حربے بروئے کار لاتے ہیں اور مقدمہ طویل ہوتا رہتا ہے اور پھر عدم ثبوت کی بنیا د پر خارج ہونے والا مقدمہ اپیل میں چلا جاتا ہے اور پھر اپیل در اپیل کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے اس سلسلے کو ختم کیے بغیر مقدمات کا انبار بڑھتا ہی رہے گا اس لیے ضروری ہے کہ بغیر ثبوت کے کسی بھی مقدمے کا اندراج نہ کیا جائے اگر ایسے مقدمات پر پابندی لگا دی جائے تو ججوں کی کمی اور فوری انصاف میں رکاوٹ خود بخود ختم ہو جائے گی۔
یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا ارشادِ گرامی ہے کہ بغیر ثبوت کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہیں ہوسکتی اس کے باوجود 90 فی صد مقدمات کی سماعت بغیر ثبوت کے ہورہی ہے اور المیہ یہ بھی ہے کہ عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج ہونے والے مقدمات کی سماعت بھی کی جاتی ہے مگر ان معاملات پر سوچنے پر کوئی آمادہ نہیں حالانکہ سب ہی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جب تک جعلی مقدمات کی سماعت اور پھر ان کی اپیل در اپیل کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا مقدمات کا انبار لگا رہے گا۔ نظامِ عدل سے وابستہ شخصیات عدلیہ کی کارکردگی بہتر بنانے میں مخلص ہوں تو بروقت انصاف کی فراہمی تھوڑی مشکل تو ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ مگر یہ عمل ان کے لیے خوش کْن نہیں۔ پیشی در پیشی اور لیفٹ اوور کے ہتھوڑے کا استعمال ترک کرنا ہوگا مگر المیہ یہ ہے کہ جسٹس صاحبان پیشی لگا نا اپنی توہین سمجھتے ہیں جو سائلین کے لیے انتہائی اذیت ناک عمل ہے۔ کیونکہ جب لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسایا جاتا ہے کہ سائلین کی آنکھیں برسنے لگتی ہیں۔
انصاف کے ہاتھوں میں ہے قانون کی زنجیر
قانون ستم گر کی تجوری میں پڑا ہے