نجکاری: مسائل کا حل یا نئی الجھنیں؟

474

پاکستان میں نجکاری کا موضوع کئی دہائیوں سے زیر بحث رہا ہے۔ حکومتوں نے مختلف ادوار میں مختلف اداروں کی نجکاری کی ہے، لیکن اس سے قومی معیشت پر کوئی نمایاں مثبت اثر نہیں پڑا، بلکہ نجکاری سے کئی نئی الجھنیں پیدا ہوئی ہیں۔ حکومت کی جانب سے 24 اداروں کی نجکاری کی منظوری ایک اہم پیش رفت ہے، لیکن اس کے ساتھ کئی اہم مسائل بھی وابستہ ہیں۔ نجکاری کے حامیوں کا کہنا ہے کہ نجکاری سے ان اداروں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ لیکن پاکستان میں اس کے تجربے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔ نجکاری کے بعد بھی بہت سے ادارے خسارے میں چل رہے ہیں اور ان کی خدمات کا معیار کم ہوگیا ہے۔ کے الیکٹرک تو کراچی کے لوگوں کے لیے اذیت بن گیا ہے جس کو سرکاری تحویل میں لینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ نجکاری کا ایک اور مقصد سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ لیکن پاکستان میں نجکاری سے سرمایہ کاری میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نجکاری کے عمل میں شفافیت کا فقدان ہے اور سرمایہ کاروں کو اعتماد نہیں ہے۔ اسی طرح نجکاری کا ایک اور مقصد قومی خزانے میں آمدنی بڑھانا ہے۔ لیکن پاکستان میں نجکاری سے قومی خزانے میں آمدنی میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہوا۔ نجکاری کے مخالفین اس بات پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں کہ اس سے قومی اثاثوں کا نقصان ہوسکتا ہے، ملازمتوں میں کمی واقع ہوسکتی ہے اور صارفین پر اضافی مالی بوجھ پڑ سکتا ہے۔ وہ یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ نجکاری کے عمل میں شفافیت کا فقدان ہوسکتا ہے جس سے بدعنوانی کو فروغ ملے گا۔ موجودہ حکمرانوں نے ماضی میں بھی اسی طرح قومی اثاثوں کو نیلام کیا تھا۔ نوازشریف کی پہلی حکومت کے دوران 40 سے زیادہ سرکاری اداروں کی نجکاری کی گئی۔ ان میں مسلم کمرشل بینک، سیمنٹ فیکٹریز، آئل ریفائنریز، اسٹیل انڈسٹریز، کیمیکل پلانٹس وغیرہ شامل تھے۔ پھر شہبازشریف کے بھائی نوازشریف ہی کی دوسری حکومت کے دوران بھی ایک درجن کے قریب قومی اثاثوں کی نجکاری کی گئی۔ پرویزمشرف کے دور میں نجکاری کا عمل جاری رہا، اس دوران کئی اہم اداروں کی نجکاری کی گئی۔ بعد میں پیپلزپارٹی کے دور میں بھی یہ عمل جزوی طور پرجاری رہا۔ لیکن اس سارے عمل میں ہوتا یہ رہا ہے کہ اشرافیہ اور مافیا ہی کو فائدہ پہنچا ہے جن میں مخصوص رشتے دار، سیاسی و بااثر افراد، شراکت دار اور دوست احباب شامل ہیں جنہیں ادارے اونے پونے داموں فروخت کیے گئے۔ نجکاری کا دوسرا دور 1997-99ء میں چلا، جب انہوں نے ایک درجن کے قریب قومی اثاثے اپنے قریبی حلقوں کو فروخت کیے۔ دنیا بھر میں نجکاری ہوتی ہے، لیکن قابلیت اور شفافیت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان میں نجکاری کے عمل میں ہمیشہ سے ہی شفافیت کا فقدان رہا ہے۔ اس سے خدشات پیدا ہوتے ہیں کہ یہ عمل کرپشن اور بدعنوانی کو فروغ دے سکتا ہے۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ بدنیتی کی بنیاد پر اور آئی ایم ایف کی خواہش پر آپ کوئی بھی کام کریں گے اْس کے مثبت نتائج نہیں نکلیں گے، اگر کسی ادارے کی نجکاری اتنی ہی ضروری ہے تو پھر اس کے لیے بنیادی تقاضے پورے کرنے کی ضرورت ہے۔ نجکاری کے کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ایک مربوط اور جامع منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھایا جائے۔ اس منصوبے میں تمام متعلقہ فریقین، بشمول حکومت، ملازمین، صارفین اور معاشرے کے دیگر طبقات کے مفادات کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ نجکاری کے عمل میں شفافیت اور احتساب کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے۔ حکومت کو نجکاری کے حوالے سے عوام کے خدشات دور کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ سارا عمل ہی بدنیتی پر مبنی ہوتا ہے اور پہلے جن اداروں کی نجکاری مقصود ہوتی ہے انہیں آہستہ آہستہ تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔ ایسے میں کہاں سے ملک کی معیشت کو فائدہ ہوگا! اصل بات یہی ہے کہ حکومت نظام کو ٹھیک کرنا ہی نہیں چاہتی۔ اس لیے بحیثیت ِ مجموعی ہم سمجھتے ہیں کہ نجکاری مسئلے کا حل نہیں ہے۔ معیشت کو بہتر بنانے کے نام پر ہم آئی ایم ایف کا شکار ہورہے ہیں، آئی ایم ایف کی شرائط پر بے چوں و چرا سر تسلیم خم کرچکے ہیں، وطنِ عزیز کی خودمختاری کا احساس نہیں ہے۔ اس سارے شور شرابے میں آئی ایم ایف سے قرض مل جاتا ہے، اور وہ مل بھی جائے گا لیکن عملی طور پر ملک دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے جس پر قومی سطح پر ملک کے لیے درد رکھنے والوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔