کراچی میں پانی اور بجلی کا بدترین بحران

689

کراچی شہر مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ تین کروڑ سے زائد کا شہر بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ اربوں روپے روزانہ کی بنیاد پر ٹیکس ادا کرنے والے شہر کے باسی پانی، بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ شدید ترین گرمی اور ان حالات میں جب نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات بھی شروع ہوچکے ہیں اور تین لاکھ سے زائد طلبہ وطالبات نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات دے رہے ہیں ایسے میں ان طلبہ وطالبات کو امتحانات کی تیاریوں میں مشکلات کا سامنا ہے اور امتحانی مراکز میں بھی دوران پیپرز بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے طلبہ وطالبات انتہائی مشکل میں ہیں۔ کے الیکٹرک کو نج کاری کے 18سال ہوچکے ہیں لیکن یہ ادارہ اب تک لوڈشیڈنگ ختم نہیں کرسکا ہے نیپرا کو چاہیے کہ وہ بدترین لوڈشیڈنگ کے خلاف کے الیکٹرک کے خلاف عملی کارروائی کرے اور کراچی میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ کے الیکٹرک کی ناقص کارکردگی نے کراچی کے شہریوںکی چیخیں نکال دی ہیں۔ کے الیکٹرک نہ بجلی کی جنریشن میں خودکفیل ہوسکی اور نہ ہی کراچی سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرسکی۔ کراچی کے شہری مہنگی ترین بجلی خرید کر وقت پر بل بھی ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجودروزآنہ آٹھ گھنٹے اور اٹھارہ گھنٹے کی بدترین لوڈشیڈنگ برداشت کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ کے الیکٹرک پورا سال AT&C کی بنیاد پر کراچی بھر میں پورے علاقے کا فیڈر بند کر کے دن رات کے اوقات میں بدترین لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ بجلی کے بل کی عدم ادائیگی اور بجلی چوری کا بہانہ بنا کر اس کی سزا بجلی کے بل وقت پر ادا کرنے والے شہریوں کو دے رہے ہیں جو کہ نیپرا قوانین اور لائسنس کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور شہریوںکو کے الیکٹرک کی جانب سے اجتماعی سزا دی جارہی ہے۔

شدید گرمی اور ہیٹ ویوکا موسم شروع ہوتے ہی کراچی کے شہریوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جارہی ہے۔ کراچی لاوارثوں کا شہر بن چکا ہے اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے کے الیکٹرک کو اربوں روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے جس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں۔ کے الیکٹرک نے جب 2005 میں ٹیک اوور کیا تو اس کے صارفین کی تعداد 18لاکھ تھی اور آج کے الیکٹرک کے صارفین کی تعداد 34لاکھ کے قریب ہے لیکن کے الیکٹرک نے بجلی کی پیداوار میں اضافے کے بجائے کمی کردی ہے۔ 2005 میں جنرل پرویز مشرف نے کے ای ایس سی کو صرف اس کے کھمبوں کی قیمت پر فروخت کیا۔ عوام کو سنہرے خواب دکھائے گئے اور کہا گیا کہ پانچ ملین کی سرمایہ کاری کی جائے گی لیکن تین سال کے بعد ہی کے الیکٹرک بھاری خسارے میں آگیا۔ 7500 ملازمین کو نجی تحویل دینے کے بعد فارغ کیا گیا۔ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نام پر بھی کراچی کے عوام کے ساتھ کے الیکٹرک مسلسل کھلواڑ کررہی ہے اور کراچی کے شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔

اس طرح پینے کے صاف پانی کی فراہمی اس شہر میں ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ کراچی میں پانی کی فراہمی کے حوالے سے آخری منصوبہ 2005 میں پایہ تکمیل تک پہنچا تھا جسے کے تھری کا نام دیا گیا اس کے بعد اب تک ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں ہوسکا۔ موجودہ سندھ حکومت نے گزشتہ سال جماعت اسلامی کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی جانب سے شروع کیے گئے کے فور منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کراچی میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جاچکی ہے۔ اکثر بالائی علاقوں میں بورنگ ممکن نہیں یا پھر زیرزمین پانی استعمال کے قابل نہیں ہے۔ شہر میں پانی ٹینکر کے ذریعے تو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن نلکوں کے ذریعے شہریوں کو پانی نہیں دیا جاتا۔ تقسیم ہند سے قبل کراچی کو پانی کی فراہمی ڈملوٹی کے پندرہ کنووں سے کی جاتی تھی اس کے لیے ڈملوٹی پائپ لائن کا نظام متعارف کرایا گیا جو ملیر سے شروع ہوکر لائنز ایریا کے گردو نواح تک پانی پہنچاتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافے کے ساتھ پانی کی طلب بڑھتی گئی اور ڈملوٹی کے کنویں خشک ہوتے گئے۔

1953 میںکراچی جوائنٹ واٹر بورڈ تشکیل دیا گیا۔ 1957 میں پہلی مرتبہ کراچی کے لیے پانی کا کوٹا تجویز کیا گیا جس کے مطابق دریائے سندھ سے 242 ملین گیلن روزانہ ربیع کے موسم میں جبکہ خریف کے موسم میں 280 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جاتا تھا۔ اس وقت کراچی کی آبادی تقریباً 17لاکھ تھی، 1961 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 19لاکھ 12ہزار تھی۔ 1978میں سابق میئر عبدالستار افغانی کے دور میں پہلی مرتبہ گریٹر کراچی منصوبہ برائے فراہمی آب K.1 شروع کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت روزانہ سپلائی کا کوٹا 280 ملین گیلن مختص کیا گیا جبکہ اس وقت کراچی کی آباد ی تقریباً 54لاکھ 98لاکھ تھی۔ اس کے بعد کراچی کو پانی فراہمی کا دوسرا منصوبہ کے ٹو عالمی بینک کے تعاون سے شروع کیا گیا جس سے اضافی 100ملین گیلن یومیہ پانی شہر کو ملنے لگا۔ سابق ناظم سٹی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں کے تھری منصوبے کو مکمل کیا گیا جس سے شہر کو مزید سو ملین گیلن یومیہ ملنے لگا۔ 2006 کے فور منصوبہ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے پیش کیا جس سے کراچی شہر کو پہلے اور دوسرے مرحلے میں 260 ملین گیلن یومیہ جبکہ دوسرے مرحلے میں 130 ملین گیلن یومیہ فراہم کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے جاتے ہی اس اہم منصوبے کو لپیٹ کر ہی رکھ دیا گیا اور اب تقریباً 20سال کا طویل عرصہ گزرنے جانے کے بعد سندھ حکومت کے فور منصوبے کو شروع کرنے کا اعلان کررہی ہے لیکن 20سال کے بعد کراچی کی آبادی تقریباً تین کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور یہ منصوبہ بھی اس شہر کے لیے ناکافی ہوگا کیونکہ بحریہ ٹائون، ڈیفنس سٹی ودیگر ہائی وے کے رہائشی منصوبوں کو اس منصوبے سے پانی فراہم کرنے سے یہ منصوبہ کراچی کے شہریوں کے لیے بیکار اور فضول ہوچکا ہے اور اپنا اہمیت کھو بیٹھا ہے۔ کیونکہ جب یہ پانی کراچی تک پہنچ ہی نہیں سکے گا اور راستے میں ہی چوری کرلیا جائے گا تو پھر اربوں روپے کے اس منصوبے کا کیا کام ہے۔

حکومت کو اگر بحریہ ٹائون ودیگر پروجیکٹ کو پانی کی سپلائی دینی تھی تو وہ اس کے لیے الگ سے منصوبہ بندی کرتی لیکن کراچی کو پانی کی فراہمی میں مسلط مافیا کراچی شہر کو پانی کی سپلائی کسی بھی قیمت پر فراہم نہیں کرنا چاہتی اور ٹینکر مافیا کی ملی بھگت سے کراچی کو کربلا بنایا ہوا ہے۔ کراچی کے شہری بدترین گرمی میں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ اس شہر کے باسی بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ اس شہر اور یہاں کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سب عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور خوشنما خواب دکھا رہے ہیں۔ حکمراں اپنی خر مستیوں میں مگن ہے اور عوام کی پریشانی اور مشکلات کا رتی بھر بھی احساس نہیں ہے۔