بہاولپور ہائی کورٹ کے معتوب بابا جی کے اصرار پر اْن کی ملاقات ایڈیشنل رجسٹرار صاحب سے کرانے کا اہتمام کیا گیا۔ ملاقات پر بابا جی نے استفسار کیا کہ بغیر ثبوت کے کسی مقدمے کی سماعت کا کیا جواز ہے؟ کہا گیا کہ عدالت سے رجوع کرنے کا حق ہر شہری کو ہے اس پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ باباجی نے کہا وہ پاکستان کے ایک باعزت شہری ہیں اور ٹیکس گزار بھی ہیں۔ عدلیہ ان کے حقوق کا تحفظ کیوں نہیں کرتی؟ آئینی طور پر عدلیہ ان کے شہری حقوق کا تحفظ کرنے کی پابند ہے۔
گزشتہ 24 برسوں سے وہ ایک بے بنیاد مقدمے میں عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں۔ سول کورٹ اور سیشن کورٹ عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمہ خارج کر چکی ہے مگر اپیل در اپیل کے ابلیسی چکر نے عدالتوں کی بھول بھلیوں پر بھٹکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ باباجی نے دست بدستہ گزارش کی کہ اْنہیں اس جعلی مقدمے سے نجات دلائی جائے۔ رجسٹرار صاحب نے کہا کہ کسی مقدمے کا اخراج اْن کے دائرہ اختیار میں نہیں تاہم وہ مخالف وکیل سے گزارش کریں گے کہ مقدمے کی پیروی کرے۔ مخالف وکیل نے باباجی کے وکیل سے معذرت کی اور کہا کہ آئندہ پیشی پر وہ ضرور آئے گا۔ وعدے کے مطابق 25 اپریل 2024 کی پیشی پر حاضر ہوگیا۔ جمعرات کے دن ڈبل بینچ نہیں ہوتا سو لیفٹ اوور کا خطرہ نہیں ہوتا مگر جسٹس مزمل صاحب نے یٰسین شریف کا ورد کرنے پر مجبورکردیا۔ وہ آئے اور جب بابا جی کا نمبر آیا تو فائل انتظار میں رکھ کر چیمبر میں چلے گئے حالانکہ دونوں فریقین کے وکلا موجود تھے کچھ دیر بعد آئے تو دوسری فائل کی سماعت کرنے لگے کیونکہ ریڈر نے فائل انتظار میں رکھنے کے بجائے سول برانچ کی فائلوں میں رکھ دی تھی۔
پابند ان کے فیصلے کی ہیں عدالتیں
قانون صرف ان کے ارادے کا نام ہے
کچھ دیر بعد آئے اور پھر چیمبر میں تشریف لے گئے۔ ریڈر نے کہا کہ اب جسٹس صاحب نہیں آئیں گے پیشی طلب کی گئی تو کہا گیا کل معلوم کرنا اور جب دوسرے دن معلوم کیا گیا تو کہا کہ سول برانچ سے معلوم کرو گویا اب تین سے چار ماہ بعد ہی پیشی ملے گی کیونکہ انتظار میں رکھنے کا مطلب لیفٹ اوور ہوتا ہے اور لیفٹ اوور کی پیشی تین سے چار ماہ بعد ہی ملتی ہے۔ اس موقع پر ہمیں جسٹس کاظم ملک کا یہ ارشاد یا د آ گیا کہ ’’اس وقت عدالتوں میں آدھے سے زیادہ مقدمات ایسے ہیں جن کی سماعت وقت برباد کرنے کے مترادف ہے‘‘ کیونکہ وہ قابلِ سماعت ہی نہیں جج چاہے تو پہلی پیشی پر ہی خارج کر سکتا ہے مگر وہ اس پر عمل درآمد نہیں کر سکتاکیونکہ عدالتوں کا مقصد وکلا کو روزگار فراہم کرنا ہوتا ہے انصاف کی فراہمی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ موصوف کے ارشادِ گرامی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مسند ِ انصاف پر جلوہ فگن شخص خدا کی نیابت کرنے کے بجائے شیطان کی جانشینی کرتا ہے اور ہماری عدلیہ ڈنکے کہ چوٹ پر شیطان کی جانشینی کا فریضہ ادا کر رہی ہے اور فخریہ طور پر اعتراف کر رہی ہے کہ فوری انصاف فراہم کیا گیا تو وکلا مالی پریشانی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ علاوہ ازیں اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وکلا رزقِ حلال کے عادی ہوجائیں گے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے عدلیہ کسی قیمت پر قبول نہیں کرسکتی۔ فرزندانِ ابلیس کو عشرت گہے خسروں کے مکین بنانے کی نوید سنا دی گئی ہے جس پر عمل درآمد ضروری ہے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ رکن ِ پارلیمنٹ ہوں یا جسٹس صاحبان ذاتی مفادات اور تحفظات کا حصول ہی اْن کا منشور ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ بے بنیاد اور عدم ثبوت کے مقدمات کی سماعت کرنے پر غور کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ عدلیہ کا کہنا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کی ذمے داری ہے اور پارلیمنٹ کا اصرار ہے کہ عوام کو قانونی تحفظ کرنا عدلیہ کا فریضہ ہے یوں دو چکیوں کے پارٹوں کے درمیان عوام پِس رہے ہیں۔
میزانِ عدل تیرا جْھکاؤ ہے جس طرف
اس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے