فرقہ واریت کی جہالت کے نتیجے میں مسجدوں پر قبضے یا قبضے کے لیے لڑائی تو آپ نے دیکھی ہوگی، سنی ہوگی، پڑھی ہوگی شاید بھگتی بھی ہو۔ کبھی آپ نے یہ سنا ہے، کہیں دیکھا ہے کہ کوئی مسجد خریدی گئی ہو یا بیچی گئی ہو۔ مسجد بنانے کے لیے جگہ خریدنا تو درست ہے۔ مسجد نبوی بھی جگہ خرید کر ہی بنائی گئی تھی۔ آج بھی مسجد کی تعمیر کے لیے جگہ خریدنا معمول کی بات ہے۔ لیکن جب کسی جگہ پر مسجد تعمیر ہوجائے تو پھر قیامت تک وہ مسجد ہی رہے گی۔ سیلاب میں، زلزلے میں یا طوفان میں یا کسی دشمن کے حملے میں مسجد گر جائے تو اس جگہ پر دوبارہ مسجد ہی تعمیر ہوگی کچھ اور نہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ وہاں کوئی گھر، اسکول یا کوئی اور عمارت بنائی جاسکے۔ اگر آپ سے کوئی کہے کہ مجھے یہاں چرچ بنانا ہے، اسپتال بنانا ہے یا کوئی اور ضروری عمارت بنانی ہے آپ پیسے لے کر مسجد بیچ دیں تو ہوسکتا ہے کہ آپ اس جگہ سے اپنے پاؤں پر چل کر گھر تک نہ جاسکیں۔ مسلمان کتنے ہی بے عمل ہو جائیں اور مسجد کتنی ہی ویران ہوجائے، یہ تصور ہی نہیں کہ مسجد یا مسجد کا کوئی حصہ کسی اور عبادت گاہ یا کسی اور مقصد کے لیے بیچا جاسکے۔ اس کے برعکس یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ چرچ بیچے جاتے ہیں۔
بچپن میں یہ پڑھا تھا اور سنا تھا کہ برطانیہ اور یورپ کے ممالک میں مسلمان مسجد بنانے کے لیے چرچ خریدتے ہیں۔ بالفاظ دیگر چرچ کی فروخت ممکن اور معمول ہے۔ آج یوکے کے ایک شہر ڈربی میں چرچ کے اندر ایک مسجد دیکھنے کا موقع ملا۔ یہاں ایک چرچ کے منتظمین نے اپنی عبادت گاہ کا ایک حصہ مسلمانوں کو بیچ دیا۔ یہاں کے مسلمانوں نے اس کو خرید کر بہت خوبصورت مسجد بنا دی ہے۔ یہاں کے مسلمان چرچ کے اندر بنی مسجد میں قیام و رکوع و سجود کرتے ہیں۔ نمازیں ادا کرتے ہیں۔ اب تثلیث کے پہلو میں پانچ وقت توحید کا اعلان ہوتا ہے۔
تلخ سچائی ہے کہ ہم ضمیر بیچ دیتے ہیں، ایمان بیچ دیتے ہیں لیکن ہم کتنے بھی بے حس ہوجائیں مسجد بیچنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہم بے عمل مسلمان یہ جانتے ہیں کہ مسجد مالک ارض وسما کی ملکیت ہے، ہماری نہیں۔ اس لیے ہمیں اسے کسی اور کو دینے یا بیچنے کا حق اور اختیار ہی نہیں۔ عبادت گاہ یا مسجد کے بارے ہمارا تصور ہمارے دین کے زندہ ہونے کا اظہار بھی ہے۔
برطانیہ میں مساجد کی تاریخ کے بارے کسی نے لکھا ہے کہ 1887 میں برطانیہ کے ایک شخص ولیم عبد اللہ نے اسلام قبول کر لیا اور نماز ادا کرنے کے لیے اپنی رہائش گاہ واقع لیور پول میں چھوٹی سی مسجد بنائی۔ غالباً یہ برطانیہ میں بننے والی پہلی مسجد تھی۔ جبکہ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت صرف لندن میں اٹھارہ سو کے قریب مساجد ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برمنگھم مساجد کی تعداد کے لحاظ سے برطانیہ میں دوسرے نمبر پر ہے۔ عام طور پر یہاں مساجد کے مینار نہیں ہوتے۔ یہاں کی مرکزی مسجد کے مینار دیکھ کرخوشی ہوئی۔ وال سال میں بھی کچھ مساجد کے مینار ہیں اور کچھ بغیر مینار کے ہیں۔
الحمدللہ برطانیہ میں جس مسجد میں بھی جانا ہوا نمازیوں کی بڑی تعداد دیکھ کر ربّ کا شکر ادا کیا۔ مزید یہ کہ نمازیوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی نظرآئی۔ برطانیہ اور دیگر غیر مسلم ممالک میں اسلامک سینٹرز کا وجود مسلمانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ مسلم بچوں اور نوجوانوں کو دین سے وابستہ رکھنے میں اسلامک سینٹرز کا بنیادی کردار ہے۔ یہ مراکز جس میں مسجد کو مرکزیت حاصل ہے دراصل علاقے کی مسلم کمیونٹی کا سماجی مرکز بھی ہے۔ شادی بیاہ نکاح کی تقریبات بھی یہیں ہوتی ہیں۔ ان ممالک میں فرقہ واریت کا عنصر بھی نظر آتا ہے اور مختلف علاقائی اور لسانی شناخت رکھنے والوں کے درمیان رشتوں ناتوں کو دیکھ کر کسی حد تک ’’امت‘‘ کا تصور نظر آتا ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کی اکثریت کو اپنی آنے والی نسل کے ایمان اور دینی و اخلاقی اقدار کے تحفظ کی فکر نظر آتی ہے۔ اس کے لیے وہ اپنے بچوں کی عام تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم اور تربیت کا بھی حتی الوسع اہتمام کرتے ہیں۔