پاکستان بحرانوں کا شکار آخر کب تک

474

پاکستان مسائل کے گِرداب کا شکار ہے۔ آج 77 سال بعد بحیثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔ پاکستان جن عظیم مقاصد کے تحت وجود میں آیا یہاں اب تک حق حکمرانی حاصل کرنے والوں نے اس کے متضاد اس طرح حکمرانی کی ہے کہ اب پاکستان کا نام ذہن میں آتے ہی کرپشن، لوٹ مار، غربت، بدحالی، فقر و فاقہ، عوام پر ظلم اور استحصال اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا۔ حکمرانوں نے اپنے وعدوں اور دعووں کا کوئی پاس رکھا اور نہ ہی عوام کی طرف سے ووٹوں کے ذریعہ اب تک اقتدار میں رہنے والی کسی بھی سیاسی جماعت کا موثر احتساب ہو سکا۔ اگر دیکھا جائے تو بڑی عجیب سی بات نظر آتی ہے کہ عوام ان کے دور حکمرانی کو یاد کرتے ہوں یا ان کے دور حکمرانی کے آپس میں ہی کچھ فرق کو محسوس کیا جاسکے۔

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

منیر نیازی کے اس شعر کی مانند ہر کچھ عرصے بعد ملک عزیز کو ایک نئے بحران کا سامنا ہوتا ہے، کبھی چینی، آٹے اور گندم کا بحران، کبھی پولٹری فیڈ اور زرعی کھاد کا بحران، کبھی بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، کبھی پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، غرض انسانوں نے انسانوں کے لیے زندگی گزارنا دوبھر اور مشکل کر دیا ہے۔ سرکاری دفاتر اور اداروں میں جائیں تو کون ایسا خوش قسمت ہوگا جس کا کام بروقت، بغیر سفارش یا بغیر رشوت دیے ہوجائے۔ مہنگائی کا علٰیحدہ رونا ہے، نہ تاجر خوش ہیں نہ دکاندار، عوام کی پہنچ سے بنیادی ضروریات اتنی ہی دور ہیں جس طرح دریا کے ایک کنارے پر کھڑے ہو کر دریا کا دوسرا کنارہ نظر تو آتا ہے لیکن اس کو پاٹنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ نوجوانوں کا کوئی پرسان حال اور نہ ان کا کوئی مستقبل ہے۔ معصوم بچے جن کو اسکول میں ہونا چاہیے وہ یا تو اسٹریٹ چائلڈ ہیں یا ’’چھوٹے‘‘ بنے ہوئے کسی مستری اور کسی میکینک کی دوکان پر اپنے ہاتھ پیر کالے کر رہے ہیں یا کسی ہوٹل میں میز بنی بینچ کو کسی میلے مٹیالے کپڑے سے رگڑ کر صاف کر رہے ہیں اور کسی میلے کچیلے پلاسٹک یا المونیم کے جگ کو میز کی زینت بنا رہے ہوتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کا اللہ ہی حافظ ہے، مریض اور تیماردار اس طرح اسپتالوں کے دالان، لان اور جنرل وارڈز میں لا وارثوں کی طرح پڑے ہوتے ہیں لگتا ہے جیسے ریلوے اسٹیشن پر لوگ کسی تاخیر سے آنے والی ٹرین کے انتظار میں ہیں۔ بس، وین اور چنگ چی میں دھکے اور جھٹکے کھاتے ہوئے مسافر خاص کر خواتین، بوڑھے اور بچے، اپنی اپنی منزل کی طرف رواں، آخر تکلیف دہ سفر کرنے پر کیوں مجبور ہیں؟، کیا عوام کے لیے آرام دہ سفر کے حصول کو ممکن نہیں بنایا جاسکتا؟۔ آئے دن اس طرح ایسے دلخراش واقعات خبروں کی صورت میں سامنے آرہے ہیں کہ جس میں سربراہ کنبہ اپنے پورے کنبے کا خاتمہ کر کے خود بھی اپنی موت اپنے ہاتھوں سے کر لیتا ہے۔ نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس، شہر ی اپنی سلامتی کے حوالے سے غیر مطمئن اور غیر محفوظ، فوج، رینجرز، پولیس، آئے دن ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی واردات کا نشانہ، آخر یہ سب کیوں؟

تھوڑا سا منظر تبدیل کر لیں، کسی شاپنگ مال چلے جائیں تو لگتا ہے کہ وہاں موجود اور آنے والے لوگ اس ملک کی مخلوق ہی نہیں ہیں، کچھ کے لباس سے تو ایسے لگتا ہے کہ ابھی ابھی یورپ کے کسی ملک سے وارد ہوئے ہیں، سب کے چہرے کھلے کھلے اور خوش گپیاں کرتے ہوئے۔ کسی چہرے پر کوئی حسرت نہیں، جو چاہتے ہیں وہ پا لیتے ہیں۔ فوڈ کورٹ یا فوڈ اسٹریٹ چلے جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ فی کس آمدنی یہاں آنے والوں کی ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں کے حساب سے ہے۔ جو چاہتے ہیں مزے سے منگاتے اور کھاتے ہیں، پانچ یا سات افراد ایک وقت کا کھانا کسی مناسب ریسٹورینٹ سے کھا کر اٹھتے ہیں تو ایک مزدور کی کم از کم نصف ماہ آمدنی جتنا بل ادا کر کے اطمینان سے نکل جاتے ہیں۔

سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کے عام ملازم اور اعلیٰ عہدے دار کی تنخواہ اور پنشن میں زمین و آسمان کا فرق آخر کیوں؟ کیا عام تنخواہ دار ملازم یا مزدور کو حکومت کی طرف سے کچھ (سبسڈی) رعایت مل رہی ہے؟۔ گھریلو اخراجات، بچوں کی تعلیم اور دیگر اخراجات، قلیل آمدنی میں بھلا کیسے جیا جاسکتا ہے، آخر یہ نا انصافی اور ظلم کا نظام کیوں اور کب تک؟، کیا عوام کی ان تکالیف کا کسی صاحب امر کو اندازہ ہے؟۔ کم سے کم تو یہ چند مناظر ہیں، اس سب کا مداوا آخر کس کی ذمے داری ہے؟، کیا اس ملک کے حالات ابتدا ہی سے ایسے تھے، اس کا جواب الجبرا یا ٹرگنومیٹری کا اتنا مشکل سوال بھی نہیں ہے تو پھر پاکستان اس ابتر صورتحال تک کیسے پہنچا، اس ملک پر اب تک کون سے طبقات اور جماعتیں اقتدار پر قابض رہی ہیں، ذرا ان کے لیڈروں کے ایکڑوں اور کنالوں پر محیط عالی شان محلات اور طرز رہائش اور معیار زندگی کو دیکھیں تو آپ کو وجوہات بھی ملیں گی اور جوابات بھی، شرط یہ ہے کہ شخصیت پرستی کے سحر سے آزاد ہو کر سوچیں۔ حالات نے درمیانے طبقہ کو پیس کر رکھ دیا ہے، اب یہاں عرف عام میں دو طبقاتی نظام ہے، 10 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

ظلم اور جبر کے برسوں سے جاری اس نظام کو انسانوں نے خود پر مسلط کرنے کا عادی اور خوگر بنا لیا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی اپنی جگہ پر لیکن عوامی رجحانات کا اندازہ آزادانہ اور با آسانی لگایا جا سکتا ہے، جب نمائندوں کو چننے کا وقت آتا ہے تو یہ اپنے اور اپنے بچوں جیسے لوگوں کو ووٹ نہیں دیتے، یہ ان لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جو انتخابات میں ایک بہروپ بنا کر اور عوام کے غمخوار کا لبادہ اوڑھ کر ان سے ووٹ مانگنے نکلتے ہیں، ووٹ کی اس بھیک میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا صدا لگانے میں ان کی بھرپور معاونت کرتا ہے۔ اقتدار پر متمکن ہوتے ہوئے ان کا رعب و دبدبہ دیدنی ہوتا ہے، کوٹ ٹائی سوٹ، بغیر سلوٹوں والے لباس اور واسکٹ میں ملبوس کبھی اپنے سرکاری دفاتر کے ٹھنڈے کمروں میں اور کبھی ٹیلی وژن کی اسکرین پر یہ بالکل مختلف اور متضاد نظر آتے ہیں، ان کے چہروں سے غریبوں کا درد محسوس ہونے کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان جگہوں پر مقیم اور تا قیامت ان سہولتوں کے حق دار ہو گئے ہیں، دہائیوں سے یہ سیاسی کھیل جاری ہے جس کے نتیجے میں پاکستان اپنے قیام سے آج تک تنزلی کی طرف لڑھک رہا ہے، حکومت قلاش ہے، عوام بنیادی سہولتوں اور ضرورتوں کے لیے ترساں ہیں، اشرافیہ اپنی تجوریاں بھر چکی اور کچھ ابھی بھی اس کے لیے کوشاں ہیں، اس ہوس کے نتیجے میں ہی گندم کا بحران پیدا ہوا ہے، اس دفعہ اس بحران کی زد میں ہاری کسان اور کاشت کار ہیں۔

بحرانوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے، مشکل حالات بدل سکتے ہیں اگر ایسے حکمرانوں کا چناؤ کیا جائے جو اہل، امانت دار، اور اپنے خیالوں تک میں سچے ہوں، اکابر اصحاب رسول کے نقش قدم پر چلنے والے سیدنا عمرؓ کی طرح جن سے جمعہ کے خطبے کے دوران نئی پہنی ہوئی قمیص کے کپڑے کے بارے میں بیت المال کا حساب طلب کر لیا جاتا ہے یا سیدنا ابوبکرؓ کی طرح جن کی تنخواہ صبح شام کے متوسط گھرانے کے راشن اور کپڑے کے مساوی مقرر کی گئی، یا جناب عمر بن عبدالعزیزؒ کی طرح جنہوں نے اپنی اہلیہ کو جہیز میں ملنے والے قیمتی ہار کو واپس بیت المال میں جمع کرادیا اور شاہی خاندان سے متعلق رشتہ داروں سے تمام جاگیروں کے دستاویزات کو پھاڑ کر جلا دیا اور انہیں بتایا کہ یہ جاگیریں انہیں ظلم کرنے کے نتیجے میں ملی تھیں، قوم کی ملکیتیوں کو قومی خزانہ میں واپسی کرادی۔ پاکستانی قوم ابھی بانجھ نہیں ہے، جس دن پاکستان کے عوام نے اپنا مقصد زندگی جان لیا اور حقیقی تبدیلی کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لیا وہی دن عوام کی خوش حالی، ملک کی ترقی اور بحرانوں کے خاتمے کی نوید ہوگا۔

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مجاہد میں اسی لیے نمازی