بے موسم کی بارشیں اور گندم کی فصل

468

گندم نومبر یا دسمبر کے اوائل میں کاشت کی جاتی ہے اس دوران بارشیں ہوتی ہیں اور گندم کے پودے زمین سے سر نکال کر بڑھنے لگتے ہیں۔ بارشیں تواتر سے ہوں تو دیکھتے ہی دیکھتے فصل لہلہانے لگتی ہے۔ بارش کے قطرے گندم کی بالیوں کو موٹا کرتے اور گندم کے دانوں میں رس بھرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اگرچہ پنجاب میں نہری نظام بھی ہے جس کے ذریعے کھیتوں میں آبپاشی کی جاتی ہے لیکن ملک کا بڑا حصہ بارانی ہے اور زراعت کا تمام تر انحصار بارشوں پر ہے۔ کسان کھیتوں میں بیچ بو کر آسمان کی طرف تکنے لگتا ہے کہ کب باران رحمت کا نزول ہو اور اس کی کوشش بار آور ہو۔ قدرت اسے مایوس نہیں کرتی۔ بارش ہوتی ہے اور اس کا دل امیدوں سے بھر جاتا ہے۔ پھر جب فصل پک کر تیار ہوجاتی ہے، سبز خوشے سنہری رنگت اختیار کرلیتے ہیں تو کسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اب بارش نہ ہو۔ سیانے کہتے ہیں کہ جب کھیتوں میں فصل تیار کھڑی ہو تو کسان کو آسمان سے سونے کی بارش بھی وارا نہیں کھاتی کیونکہ اس بارش سے اس کی محنت ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے اور یہ خطرہ اسے چین نہیں لینے دیتا۔

قدرت اللہ کے بندوں کو آزمائش میں ڈالتی رہتی ہے، یہ اللہ کا نظام ہے جس سے مضر نہیں آدمی اس نظام سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔ قدرت نے اسے ہر طرف سے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ اب کی دفعہ گندم کی بوائی کے بعد خلاف معمول بہت کم بارشیں ہوئیں جس کے نتیجے میں گندم کی بالیاں ٹھٹھر کر رہ گئیں اور ان میں موجود گندم کے دانے بھی سکڑ گئے۔ ماہرین کا اندازہ تھا کہ بارانی علاقوں میں بروقت بارشیں نہ ہونے سے گندم کی پیداوار میں فی ایکڑ پانچ من کی کمی واقع ہوگی اور کسان کو یہ نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ بڑا کسان جسے زمیندار کہتے ہیں یہ نقصان ہنسی خوشی برداشت کرلے گا لیکن چھوٹا کسان جس کی معیشت کا تمام تر انحصار ہی گندم کی پیداوار پر ہے بیچارا مارا جائے گا۔ یہاں تک تو خیر پھر بھی غنیمت تھا، کسان صبر و شکر کرکے گزارہ کرلیتا، لیکن اب کی دفعہ قدرت کچھ زیادہ ہی ناراض تھی اس کی اس ناراضی کو وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہیے جب ملک میں فسق و فجور بڑھ جائے، اللہ کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہونے لگے اور ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہو تو قدرت بھی قوموں کو جھنجھوڑنے کے لیے اپنا تازیانہ برساتی ہے اور بے موسم کی طوفانی بارشوں، سیلابوں، زلزلوں اور دیگر آسمانی آفات سے قوموں کا امتحان لیتی ہے۔ پاکستان کو بھی بے موسم کی طوفانی بارشوں سے اس امتحان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا مجموعی اثر تو قومی معیشت پر پڑا لیکن اس سے براہِ راست چھوٹا کسان متاثر ہوا جس نے اپنی فصل کاٹ کر کھیتوں میں ڈھیر کی ہوئی تھی اور اس انتظار میں تھا کہ اسے کرایے پر تھریشر ملے تو وہ گندم کی بالیوں سے گندم کے دانے اور بھُس کو ایک کرکے گندم کو ذخیرہ کرلے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بڑے زمینداروں کے پاس تو تھریشر اپنے ہوتے ہیں وہ فصل کی کٹائی بھی مشین سے کرتے ہیں اور اسی مشین کے ذریعے گندم کے دانے اور بھُس کو الگ کرنے کا عمل بھی مکمل ہوجاتا ہے۔ لیکن چھوٹے کسان کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوتی۔ جب فصل تیار ہوجاتی ہے تو کسان کا پورا خاندان عورتیں اور مرد مل کر درانتی سے اسے کاٹتے ہیں اور اس کے گھٹے بنا کر کھیتوں میں اسے ڈھیر کردیتے ہیں اور تھریشر کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

اب کی دفعہ ہوا یہ کہ کھیتوں میں فصل کٹی پڑی تھی کہ اچانک بے موسم بارشیں شروع ہوگئیں، بارشیں بھی طوفانی جن سے بہت سی اموات بھی واقع ہوئیں اور کچے مکانات کو بھی نقصان پہنچا۔ اس کے ساتھ ساتھ ژالہ باری بھی ہوئی۔ کھیتوں میں پڑی ہوئی فصل کا جو حشر ہوا اس کا حال کسی کسان سے پوچھیے جس کی ساری جمع پونجی لٹ گئی۔ بارش سے گندم کے دانے کالے پڑ گئے اور کھانے کے قابل نہ رہے۔ کسان جو گندم بچانے میں کامیاب رہا اسے پنجاب حکومت نے خریدنے سے انکار کردیا۔ اس طرح بیچارا دونوں طرف سے مارا گیا۔ گندم ہماری بنیادی خوراک ہے لیکن جو کسان گندم اُگاتے اور ملک کو خوراک میں خود کفیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے انہوں نے کوئی بہت جرم کردیا ہو۔ واقعی طاقتور کمیشن مافیا اسے بہت بڑا جرم سمجھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان گندم پیدا نہ کرے اور وہ امریکا، کینیڈا، یوکرین اور آسٹریلیا سے گندم درآمد کرکے لاکھوں ڈالر کمیشن کماتا رہے۔ اب کی دفعہ بھی ایسا ہی ہوا ہے، ایک باخبر صحافی کا کہنا ہے کہ گندم کی نئی فصل آنے سے پہلے ہی گندم درآمد کرلی گئی اور ملک کا کسان اپنی گندم بیچنے کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے۔

زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس ہڈی کو توڑنے میں حکمرانوں سمیت تمام مفاد پرستوں نے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے ورنہ ہم تو اسے تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔