نادرا عملے نے عدالتی احکامات ردی کی ٹوکری کی نظر کردیئے، اپنا قانون بنالیا، سائلین پریشان

478
Cylian worried

کراچی: نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی( نادرا) کے عملے نے عدالتی احکامات ردی کی ٹوکری کی نظر کردیا ، شناختی کارڈ حصول کے لیے انہوں نے اپنا قانون بنا لیا ہے۔ سائلین8برس سے نادرا کے دفتر دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔

بیٹی کا شناختی کارڈ بنانے کی آٹھ سال سے کوشش کر نے والی خاتون کو ہر بار اگلی تاریخ دے کر نادرا کا عملہ بھگا دیتا ہے۔ عائشہ منزل نادرا کہ زونل آفس کے باہر شہریوں نے جسارت سے بات چیت کرتے ہوئے نادرا کے خلاف شکایت کے انبار لگا دیے ہیں۔عائشہ منزل پر واقع نادرا زونل دفتر میں عوام کو بلاوجہ تنگ کرنا معمول بن گیا ہے۔ صبح 6سے شام تک شہریوں کو لمبے انتظار کے بعد ایک ماہ بعد کی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ اس موقع پر ایک خاتون نے اپنا نام نہ ظاہر کرتے ہوئے روتے ہوئے بتایا کہ شوہر کا انتقال ہوگیا ہے دو بیٹوں کے کارڈ بن گئے مگر بیٹی کا کارڈ تاحال نہیں بنا سکا ہے۔

خاتون کا کہنا تھا کہ  نادرا کا عملہ کچھ بتانے کو بھی تیار نہیں ہے۔ 8برس سے نادرا آفس کے چکر لگا لگا کر تھک چکی ہوں مگر ہر بار یہ کہہ کر بھگا دیا جاتا ہے کہ انکوائری ہو رہی ہے۔ یہ کونسی سی انکوائری ہے جو آٹھ سال سے چل رہی ہے۔ میری بیٹی کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے مگر نادرا کے دل میں زرا رحم نہیں آتا ہے۔

اس موقع پر ایک چوبیس سالہ نوجوان کا کہنا تھا کہ اٹھارہ سال کی عمر میں خوشی خوشی شناختی کارڈ بنوانے گیا تھا یہ سوچ کر کارڈ بن جائے گا تو کوئی نوکری کرکے گھر والوں کا ہاتھ بٹا سکوں گا۔ مگر چھ سال گزرنے کے بعد بھی کارڈ نہیں دیا جارہا ہے۔ ٹوکن پر ہر بار یہ لکھ کر بھیج دیاجاتا ہے کہ ویری فائی ہونے تک کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔

نوجوان نے مزید کہا کہ یہاں جس کے پاس سفارش ہے اس کا کام ہوجاتاہے۔ افغانیوں کو بنا کسی انکوائری کے کارڈ بنا کر دیے جا رہے ہیں مگر پاکستانیوں کو ذلیل کیا جارہا ہے۔

نادرا دفتر میں ایک پولیس اہلکار بھی موجود تھا جس نے بتایا کہ میری پولیس میں اٹھارہ سال کی سروس ہوچکی ہے میں اب ریٹائرمنٹ کے نزدیک آیا ہوں تو میرا کارڈ بلا جواز بلاک کردیا گیا ہے۔ پوچھنے پر صرف یہ کہا جاتا ہے کہ انکوائری ہو رہی ہے۔

پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ سرکاری نوکری دینے سے پہلے جو انکوائریز ہوئی ہیں پھر وہ کیا تھیں۔ کیا نادرا کو اب جا کر خیال آیا ہے کہ میرے کارڈ کی انکوائری ہونی چاہیے۔ ملک میں کوئی قانون نام کی چیز نہیں ہے۔

جسارت سے بات چیت کرتے ہوئے ایک خاتون نے بتایا کہ دو ہزار سولہ میں اس کا کارڈ اسپائر ہوگیا اور اسی دوران شادی بھی ہوگئی۔ شادی کے بعد شوہر کے نام پر کارڈ بھی بنا لیا مگر جب دو ہزار اٹھارہ میں بچوں کے کاغذات بنوانے گئے تو معلوم ہوا کہ کارڈ بلاک ہے۔ جسے کھلوانے کے لیے نادرا کے تمام مراکز پر گئے لیکن ہر جگہ یہ ہی کہا گیا کہ یہ کورٹ میٹر ہے۔ بلآخر جب دو ہزار اکیس میں کورٹ گئے تو اور تین سال کیا چلنے کے بعد جب کیس جیت لیا ہے تو اب نادرا کا عملہ کہتا ہے کہ ہم کسی کورٹ کو نہیں مانتے ہے۔ اب یہاں کی انکوائری لازمی ہے۔ سمجھ نہیں آتا یہ کیسا قانون ہے جہاں ہر شہری اپنے حقوق کے لیے دربدر کی ٹھوکریں ہی کھاتا نظر آتا ہے۔

خاتون کے مطابق میں نے نادرا کی انکوائری بھی مکمل کرلی اور کورٹ کا پروسس بھی مکمل کرلیا ہے۔ مجھے ایک ماہ بعد بلایا گیا تھا۔ آج جب میں آئی تو اب یہ نئی کہانی سنا رہے ہیں کہ آپ کی انکوائری پہلے ہری پور سے ہوگی اور اس کے بعد یہاں دوبارہ ہوگی۔ وہاں کے افسران کی تبدیلی کی وجہ سے انکوائری میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ جب میں نے معلوم کیا کہ یہ انکوائری کب تک مکمل ہوگی تو آگے سے جواب ملا کہ اس میں ایک ماہ اور ایک سال بھی لگ سکتا ہے۔ مجھے بتایا جائے کہ اس دوران میرے بچوں کے کاغذات کا کیا بنے گا۔ اس مسئلے کی وجہ سے میرے شوہر کا کارڈ بھی بلاک ہونے والا ہے۔

خاتون نے مزید کہا کہ یہ کیسا قانون ہے کہ اگر میرے کارڈ میں کوئی مسئلہ ہے تو اس کا میرے شوہر کے کارڈ سے کیا واسط ہے؟ کیا اس کے کوئی شہری حقوق نہیں ہے؟ میں نادرا کی انکوائریز کا سامنا کررہی ہوں تو پھر میرے شوہر اور بچوں کے کاغذات میں نادرا کیوں بلاوجہ رکاوٹ پیدا کررہا ہے۔

خاتون نے کہا کہ میں اب نادرا کو سپریم کورٹ میں بلوا کر وہاں جواب طلب کروں گی کہ آیا مجھے بتایا جائے جب آپ کے معلوم ہی نہیں کارڈ کیوں بلاک ہوا ہے تو پھر کورٹ کے آرڈر پر اسے کھولنے میں ٹال مٹول سے کیوں کام لیا جارہا ہے۔

اس موقع پر ایک بزرگ خاتون جس کی عمر70 سال سے زائد تھی نے روتے ہوئے بتایا کہ میں ایک بیوہ عورت ہوں۔ ایک ہی بیٹا ہے جس کے لیے کئی سال سے نادرا دفتر کے چکر لگا رہی ہوں مگر اس کے کارڈ کا اب تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکا ہے۔ باپ کا کارڈ اور دیگر تمام کاغذات فراہم کردیے گئے مگر ہر بار ایک ہی ڈرامہ کیا جاتا ہے کہ فلاں کاغذ لے آؤ۔

بزرگ خاتون نے مزید کہا کہ میری طبیعت اب ایسی نہیں کہ میں مزید نادرا کے دفتر چکر لگا سکوں سوچتی ہوں اگر میں مرگئی تو میرے بیٹے کا کیا ہوگا۔کیوں کہ میرے جیتے جی اس کا کارڈ نہیں بن رہا تو کل میں مرگئی تو پھر نادرا نے اسکو پاکستانی بھی تسلیم نہیں کرنا ہے۔

واضح رہے کہ عائشہ منزل زونل آفس کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے نادرا افسران کو عوام کی مشکلات سے کوئی غرض نہیں ہے۔ سائلین روزانہ ایک امید لے کر یہاں آتے ہیں مگر واپسی نا امید لوٹتے ہیں